بجٹ کے کمزور پہلو۔۔۔۔

بجٹ برائے مالی سال 2021-22ء میں ٹیکس وصولی سے آمدن کے جو اعدادوشمار ظاہر کئے گئے ہیں‘ اُن کا حصول ناممکن حد تک دشوار ثابت ہوگا۔ بجٹ دستاویز میں ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی 5ہزار 829 ارب روپے ظاہر کی گئی ہے۔ 29 مئی کے روز ٹیکس وصولی کے مجاز ادارے ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR)‘ نے بتایا کہ اِس نے 11 ماہ کے دوران 4 ہزار 143 ارب روپے مالیت کا ٹیکس وصول کیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے  کہ مالی سال کے باقی ماندہ حصے میں ’ایف بی آر‘ قریب 4 ہزار 500 ارب روپے تک ٹیکس وصول کر لے گا۔ جو ادارہ رواں مالی سال (2021-22ء) کیلئے مقررہ ہدف حاصل نہ کرسکا ہو‘ اُس سے اِس بات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ آئندہ مالی سال میں 30 فیصد زیادہ ٹیکس جمع کرے گا؟ اگر ’ایف بی آر‘ آئندہ مالی سال میں 15 فیصد بھی زائد ٹیکس جمع کرے تو یہ 5 ہزار ارب روپے ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ بجٹ میں 800 ارب روپے کی آمدنی کا خسارہ ہوگا۔ ٹیکس وصولی سے آمدنی کے بارے میں جب کوئی ہدف مقرر کیا جاتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت متوقع آمدنی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اخراجات کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ تصور کریں کہ اگر پاکستان کی خام قومی آمدنی بڑھ کر 50 کھرب روپے ہو جائے۔ مالی سال 2020ء میں پاکستان کی خام قومی آمدنی  اور ٹیکس کی شرح 9.6 فیصد تھی‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ 4800 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا۔ اگر ٹیکس اور خام قومی آمدنی کی شرح میں 10فیصد اضافہ کیا جاتا ہے تو اِس کا مطلب ہوگا کہ آئندہ مالی سال میں 5000 ارب روپے ٹیکس جمع ہوگا اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں حکومتی فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ اُنہوں نے آئندہ مالی سال کیلئے ٹیکس وصولی کا جو ہدف مقرر کیا ہے اُس میں کم سے کم بھی 800 ارب روپے کی ٹیکس وصولی میں کمی ہو سکتی ہے۔ٹیکس وصولی (آمدن) کے بارے میں غلط اندازے لگانے علاوہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے حوالے سے صورتحال کا درست اندازہ نہیں لگایا گیا۔ بجٹ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضہ جات کا مجموعی حجم 2673 ارب روپے ہے اور اِن اعدادوشمار میں غلطی 2 کھرب روپے کی ہے۔ بیرونی قرضوں کے علاؤہ پاکستان نے بینکوں کے علاوہ 1241 ارب روپے قرض لئے ہیں۔ یہ قرض قومی بچت کے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کی صورت لئے گئے ہیں جیسا کہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس‘ بہبود سیونگ سرٹیفیکٹس‘ ریگولر انکم سرٹیفکٹس‘ سپیشل سیونگ سرٹیفکٹس اور شارٹ ٹرم سیونگ سرٹیفکٹس کی صورت عوام نے کر رکھی ہے۔ اِس کے علاوہ حکومت نے بینکوں سے 681 ارب روپے قرض لے رکھے ہیں۔ اِسی طرح سرمایہ کاری کے دیگر منصوبوں جیسا کہ ٹی بلز‘ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز اور سکوس کے ذریعے حکومت نے 3000 ارب روپے قرض لے رکھا ہے اور اِن مالیاتی ذمہ داریوں کا ذکر بجٹ میں نہیں کیا گیا۔سٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران 1163 ارب روپے اپنا منافع ظاہر کیا جبکہ اِس سے قبل کے مالی سال  میں 1043 ارب روپے خسارہ ہوا تھا۔ رواں برس کے بجٹ میں سٹیٹ بینک نے 650 ارب روپے کا منافع ظاہر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو یہ بات کس طرح معلوم ہوئی کہ سٹیٹ بینک نے غیرمعمولی منافع کمایا ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہاسٹیٹ کس طرح کھربوں روپے منافع یا خسارہ کر سکتا ہے اور اگر سٹیٹ بینک نے منافع کیا بھی ہے تو اِسے حکومت اپنی آمدنی کس طرح ظاہر کر سکتی ہے۔بجٹ میں قومی اداروں کی نجکاری کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اِس سے 252 ارب روپے آمدنی ہوگی۔ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں نجکاری سے 100 ارب روپے کی آمدنی ظاہر کی گئی تھی اور اِس سے قبل 150 ارب روپے کی آمدنی نجکاری سے متوقع تھی لیکن تب بھی یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا اور اندیشہ ہے کہ رواں سال کیلئے نجکاری سے جو 252 ارب روپے کی آمدنی ظاہر کی گئی ہے وہ بھی حاصل نہیں ہو سکے گی اور یہ دعویٰ حسب سابق سچ ثابت نہیں ہوگا۔بجٹ میں صوبوں سے وفاق کی آمدنی 570 ارب روپے ظاہر کی گئی ہے جسے ’پراونشیل سرپلس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اِس ’پراونشیل سرپلس‘ کا مطلب یہ ہے کہ وفاق صوبوں کو جو پیسے دے گا وہ اِس میں سے بچت کر کے وفاق کو واپس کر دیں گے اور یہ واپس ملنے والی رقم 570 ارب روپے ہوگی۔ کیا ایسا ممکن ہے اور کیا یہ منطقی بات ہے؟ توجہ طلب ہے کہ حال ہی میں پیش کیا گیا سندھ کا بجٹ میں 25 ارب روپے کا خسارے ظاہر کیا گیا ہے وفاقی اُور صوبائی حکومتوں کے محکمہئ خوراک بینکوں سے قرض لیکر مہنگے داموں گندم خرید کر سستے داموں عوام کو فراہم کرتی ہیں۔ اِس طرح سالانہ 700 ارب کا خسارہ ہوتا ہے۔پاکستان کے مالیاتی ذمہ داریاں اور امور قرض حاصل کر کے ادا کی جاتی ہیں اور قرض حاصل کرنے کے وقت حکومت کچھ یقین دہانیاں کرواتی ہیں کہ وہ اپنی آمدنی کے ذرائع میں اضافہ اور خسارے کا باعث بننے والے کاموں سے اجتناب کرے گی لیکن بجٹ میں خریداریوں پر رعایت کے رجحان کا برقرار رکھا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے ساتھ اجلاس (چھٹی نظرثانی ملاقات) سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان کے لئے فیصلے کی گھڑی ہے کہ یہ رعایت ختم کر کے قرض کی نئی قسط حاصل کر لے۔ کیا اِس ہدف (قرض)کے حصول میں امریکہ یا سعودی عرب پاکستان کی مدد کریں گے؟  (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)