پاکستان میں ہر سال 33 ارب لیٹر دودھ کی پیداوار ہوتی ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے جو دودھ کی اِس قدر زیادہ پیداوار رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دودھ اور دودھ سے بنائی جانے والی مصنوعات کی صنعتیں منافع بخش ہیں۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں 80 لاکھ لوگوں کا روزگار دودھ یا دودھ سے بننے والی مصنوعات (ڈیری انڈسٹری) سے جڑا ہوا ہے اور دودھ پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن لمحہئ فکریہ یہ ہے کہ دودھ کو حاصل کرنے کے بعد اِس کی تقسیم و فروخت کے مراحل میں حفظان صحت کے اصولوں کا خاطرخواہ خیال نہیں رکھا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ دودھ کے 90 فیصد صارفین ایسا محلول استعمال کر رہے ہوتے ہیں جو اپنی غذائیت اور افادیت مختلف وجوہات کی بنا پر کھو چکا ہوتا ہے اور اِن محرکات میں کیمیائی مادوں بشمول پانی کی ملاوٹ بھی شامل ہے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ دودھ کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے زیادہ لمبے عرصے کیلئے ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا اور ذخیرہ کرنے کیلئے ’سرد خانوں (کولڈ سٹوریجز)‘ کی ضرورت ہوتی ہے جن کی شدید کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز حاصل ہونے والے دودھ کی بڑی مقدار جیسے تیسے فروخت کر دی جاتی ہے حالانکہ اگر دودھ کو سرد خانوں کے ذریعے محفوظ کیا جائے اور اِس کی مصنوعات کی مارکیٹنگ ہو جس میں پیکیجڈ دودھ سے متعلق پائے جانے والے شکوک و شبہات رفع کرنا بھی شامل ہے تو دودھ جیسی نعمت سے بہتر اور زیادہ فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ کھلا دودھ استعمال کرنے کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر افراد کو اِس طرح دودھ گھر کی دہلیز پر مل جاتا ہے اور دودھ فروخت کرنے والے گھر گھر اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ باسہولت خریداری کا اسلوب رائج ہو چکا ہے اور اِس بات سے صارفین کی اکثریت کو غرض نہیں کہ جو کھلا دودھ اُنہیں باسہولت انداز میں گھر کی دہلیز پر مل رہا ہے اُس کی غذائیت کم یا بالکل ختم ہو چکی ہے۔ صارفین کو دودھ کے معاملے میں زیادہ احتیاط اور اپنے معمولات و نظریات کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ دودھ انسانی جسم کی نشوونما بالخصوص بچوں کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ڈبوں میں بند (پیکجیڈ) دودھ کے بارے میں انواع و اقسام کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن کے بارے میں شکوک و شبہات کا عمومی اظہار ہوتا ہے اور بہت کم صارفین حقیقت جاننے کی جستجو رکھتے ہیں لیکن وہ مضر صحت دودھ استعمال ترک نہیں کرتے۔ دوسری طرف حکومتی ادارے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جو مضرصحت دودھ کی فروخت کرنے کے عمل کو روک نہیں پا رہے۔ مضر صحت دودھ کئی بیماریاں پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے اور اِس سے صحت عامہ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔پاکستان میں ڈبوں میں بند دودھ کے مقابلے کھلا دودھ زیادہ فروخت ہوتا ہے اور اِس سلسلے میں عوامی شعور میں اضافہ کرنے کیلئے نجی ادارے خاطرخواہ کوشش نہیں کر رہے کیونکہ اُن کی پیداواری صلاحیت کے مطابق پیکیجڈ دودھ فروخت ہو رہا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے منافع کا کچھ حصہ عوامی شعور میں اضافے کیلئے تو وقف کرتے ہیں لیکن زیادہ بڑے پیمانے پر کوششیں نہیں کی جاتیں۔ اصولاً پیکیجڈ دودھ بنانے والے اداروں کو اپنی پیداواری صلاحیت اور مارکیٹنگ کے نیٹ ورک کو توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں ایک ذمہ داری حکومتی اداروں کی بھی بنتی ہے کہ وہ نجی اداروں کو پیکیجڈ دودھ میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کریں۔ اِس شعبے کے لئے زیادہ مراعات کا اعلان کیا جائے اور بینکوں کو آسان شرائط پر قرضہ جات کی فراہمی کیلئے قائل کیا جائے کیونکہ دودھ کی فروخت ایک ایسا کاروبار ہے جس میں خسارے کا امکان دیگر صنعتوں (شعبہ جات) کے مقابلے بہت ہی کم ہے۔ پیکیجڈ دودھ کے کاروبار کو ’ریگولرائزیڈ‘ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ غیرملکی کمپنیاں پاکستان کی اِس اہم پیداوار سے فائدہ اٹھا رہی ہیں لیکن ملکی سرمایہ کار اِس جانب راغب نہیں۔پاکستان کے فیصلہ ساز ترکی‘ بھارت‘ ملائیشیا‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ تھائی لینڈ اور انڈونیشیا سمیت کئی ممالک کی مثالوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے ہاں کھلے دودھ کی فروخت کے معمول کو پیکیجڈ دودھ سے بدل دیا اور ایسا کرنے کیلئے پیکیجڈ دودھ کی صنعت کی اہمیت کو سمجھا اور مراعات دیں۔ پیکیجڈ دودھ کی صنعت میں حکومت کی مداخلت اور اِس شعبے کی نگرانی کے ساتھ مراعات کا اعلان ضروری ہے۔ نجی شعبے کے تعاون سے حکومت خود بھی پیکیجڈ دودھ میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے جس سے اِس شعبے (دودھ کی پیداوار) میں اضافہ ممکن ہے اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو صحت عامہ کا تحفظ بھی ممکن ہو جائے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: انعم پاشا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)