درمیانی راستہ۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نے اِس بات کو خارج از امکان قرار دیا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ داعش القاعدہ یا طالبان جیسی تنظیموں کے خلاف کسی بھی جنگی مہم کا حصہ بنے گا۔ وزیراعظم کا یہ مؤقف حیران کن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اِس بات کی تعریف کر رہے ہیں کہ پاکستان نے اپنے لئے ایک ایسا درمیانی راستے کا انتخاب کیا ہے جو اِس کی امن و سلامتی اور ترقی کا باعث بنے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کسی بھی ملک کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کیا اور اِس خیال کو باطل قرار دیا کہ پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے دے گا یا پاکستان کی سرزمین پر امریکہ اپنا اسلحہ گولہ بارود جمع کرے گا۔ درحقیقت وزیراعظم عمران خان کا یہ واضح مؤقف گزشتہ دو دہائیوں (بیس برس) کے دوران اُن کی افغان مسئلے سے متعلق رائے ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ بات چیت کے سوا کسی دوسرے راستے سے حل نہیں ہوسکتا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے متعدد انٹرویوز میں انہوں نے بارہا اپنے اِس مؤقف کو دہرایا ہے اور افغانستان مسئلے کا حل صرف اور صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور جنگ مسئلوں کا حل نہیں ہوتی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعمیروترقی اور امن کے قیام میں تو ساتھی بنے گا لیکن وہ کسی ایسی حکمت عملی کا حصہ نہیں بنے گا جو جنگ اور بدامنی کا باعث بنے۔حال ہی میں امریکہ کے ایک نشریاتی ادارے کے اہلکار جوناتھن سوان (Jonathan Swan) نے پاکستان میں امریکہ کے فوجی اڈوں کے قیام کی اجازت بارے سوال میں پوچھا کہ کیا آپ امریکہ کو فوجی اڈے قائم کرنے دیں گے؟ ہاں یا نہیں؟ اور اُنہیں خلاف توقع انکار سننے کو ملا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان فوجی گہرا تعاون موجود ہے‘ جس میں معلومات کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے اور اگر ہم گزشتہ بیس برس سے اِن تعلقات کا جائزہ لیں تو امریکہ نے پاکستان کے اثرورسوخ اور وسائل سے بھرپور فائدہ اُٹھایا ہے۔ امریکہ کیلئے پاکستان ایک ایسے میٹھے پانی کا کنواں ہے جس سے وہ جی بھر کے اپنی پیاس بجھاتا ہے اور نہ تو یہ کنواں خشک ہوتا ہے اور نہ ہی امریکہ کی طبیعت سیر ہوتی ہے۔ امریکہ اپنی عسکری اور معاشی طاقت کے زعم (بل بوتے پر) پوری دنیا پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے افغانستان میں ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس میں بغیر کامیابی اور بیس سال اربوں ڈالر جھونکنے کے بعد بھی وہ نامراد واپس لوٹ رہا ہے۔ یہ مرحلہئ فکر پاکستان کے اِس مؤقف کے بارے امریکہ کے فیصلہ سازوں کی توجہ کا ہے کہ افغان مسئلے کا حل اگر ممکن ہے تو وہ مذاکرات ہی ہیں اور کتنی ہی بڑی فوجی طاقت کے ذریعے اگر افغان مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اِس میں سوائے ناکامی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔  وزیراعظم عمران خان کا افغانستان میں قیام امن سے متعلق مؤقف نہ صرف دنیا کی سمجھ میں آ رہا ہے بلکہ واضح بھی ہورہا ہے بالخصوص گیارہ ستمبر سے امریکہ افواج کا انخلأ جاری ہے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ طالبان کو کسی بھی صورت شکست نہیں دی جا سکتی اور اُن کی اِس رائے کے پیچھے وہ طویل تاریخ ہے جس میں پختونوں نے ہر دور میں خارجی مداخلت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کبھی بھی کسی قوت کے آگے ہار نہیں مانی۔ بہرحال پاکستان افغانستان میں قیام امن کے اِس نازک وقت میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے افغانستان کے حالیہ دورے کے دوران جب ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا القاعدہ تنظیم کا سربراہ اسامہ بن لادن کو شہید کہنا چاہئے تو اُنہوں نے اِس سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان ایک ایسے وقت میں طالبان کے ساتھ اختلاف نہیں چاہتا اور نہ اِس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہے جس سے زیادہ اہم فی الوقت افغانستان میں قیام امن ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی خواہش اور کوششوں سے افغانستان میں قیام امن ممکن ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اِس لمحے پاکستان کسی بھی افغان فریق کی حمایت یا مخالفت سے زیادہ یہ چاہتا ہے کہ افغان فریق آپس میں مل بیٹھ کر کوئی ایسا حل نکالیں جس سے قیام امن ممکن ہو۔جب کوئی رہنما امن اور خوشحالی چاہتا ہے جیسا کہ عمران خان اور اُن کی وفاقی کابینہ کی جانب سے بارہا اظہار ہوا ہے تب جنگ کو ہر صورت روکنا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مشرف زیدی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)