پاک امریکہ تعلقات۔۔۔۔

پاکستان کی جانب سے دنیا کو متوجہ کیا گیا کہ ”افغانستان میں قیام امن و استحکام میں شراکت دار بننے کو تیار ہیں مگر افغان جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور امریکہ کو پاکستان کی سرزمین فوجی اڈے بنانے کیلئے نہیں دیں گے۔“ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ”اگر امریکہ کو اڈے فراہم کئے تو پاکستان میں دوبارہ دہشت گردی کی لہر آسکتی ہے۔ افغانستان میں جنگوں کے دوران پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ ہمارے ستر ہزار سے زائد باشندے شہید ہوئے‘ امریکہ نے پاکستان کو بیس ارب ڈالر کی امداد فراہم کی جبکہ پاکستان کی معیشت کو ایک سو پچاس ارب ڈالر کانقصان پہنچا۔ امریکہ کے ساتھ افغان جنگ میں شامل ہونے کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم امریکی انخلأ کے بعد کسی بھی تنازعہ میں پڑنے سے گریز کریں گے کیونکہ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔“ مضمون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان افغان عوام کی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ چلے گا اور پاکستان کا کوئی بھی افغان گروپ پسندیدہ نہیں۔ امریکہ اور پاکستان کا افغانستان میں ایک ہی ہدف ہے کہ وہاں امن بحال ہو جو خانہ جنگی ختم ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان کا یہ مؤقف اِس لئے بھی ہے کیونکہ اندیشہ یہ ہے کہ خانہ جنگی کے نئے دور کی وجہ سے افغان پناہ گزینوں کا بوجھ بڑھے گا اور امکان یہ بھی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے ساتھ ہی سیاسی امن عمل اور خطے میں ترقی کیلئے نیا علاقائی معاہدہ بھی ممکن ہوگا۔ افغانستان ایک طویل عرصے سے شورش زدہ ہے اور اِس شورش کا اثر براہ راست پاکستان پر مرتب ہو رہا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ دیکھیں۔ 70ء کی دہائی سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں اور ان پاک امریکہ تعلقات کا خمیازہ پاکستان کو لاکھوں افغان مہاجرین کے بوجھ کے  ساتھ ساتھ  اندرون ملک پیدا ہونے والی بدامنی کی صورت میں بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بیشک آزاد اور خودمختار ریاستوں کے مابین پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ہی دوطرفہ تعلقات قائم اور استوار ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا لیاقت علی خان کے دور سے ہی صحیح تعین نہ ہو پایا جنہوں نے سوویت یونین کے دورے کی پیشکش ٹھکرا کر امریکہ سے تعلقات استوار کرنا اپنی حکومت کی ترجیح بنایا اور اس طرح پاکستان امریکی بلاک میں شامل ہو کر سوویت یونین ہی نہیں‘ خطے کے دیگر ممالک حتیٰ کہ اپنے ہمسائیوں سے بھی دور ہو گیا جبکہ امریکہ نے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ کرنے کی بجائے پاکستان کے دشمنوں کی پشت پناہی کی۔ بھارت جو کہ 80ء کی دہائی تک سوویت یونین کا اتحادی بن کر ”سامراج مردہ باد“ کے نعرے لگاتا رہا تاہم امریکی سرد جنگ کے نتیجہ میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد اِس نے یکایک اپنا قبلہ تبدیل کرلیا اور امریکی پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر وہ خود کو امریکی فطری اتحادی کہلانے میں فخر محسوس کرنے لگا۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ دیکھی جائے تو امریکہ نے ہر معاملہ پر پاکستان کی توقعات کے برعکس حکمت عملی اختیار کی۔ 1970ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان چھٹے امریکی بحری بیڑے کے ذریعے امریکہ کی فوجی کمک پہنچنے کا انتظار کرتا رہا اور بھارت اپنی سازش میں کامیاب ہوگیا لیکن امریکی بحری بیڑہ نہ پہنچ پایا۔ امریکہ نے افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز بھی پاکستان کی معاونت سے کیا جس کے دوران افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کے ساتھ آنے والا کلاشنکوف کلچر بھی ہمارے معاشرے میں سرائیت کرگیا جس نے یہاں بدامنی کو فروغ دیا جبکہ افغان مہاجرین ہماری معیشت پر اضافی بوجھ بن گئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ افغان مجاہدین کی گوریلا کاروائیوں کے باعث دنیا کی سپرپاور سوویت یونین گورباچوف کے ہاتھوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی اور امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور بن گیا۔نائن الیون حملوں کے بعد امریکی انتظامیہ نے پاکستان کو پتھر کے زمانے کی جانب واپس لوٹانے کی دھمکی دے کر اسے افغان جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا مگر اس کے کردار پر مسلسل بداعتمادی کا اظہار اور ڈومور کے تقاضے جاری رکھے جبکہ اس جنگ کے ردعمل میں ہی پاکستان بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زد میں آیا۔ صرف یہی نہیں‘ امریکہ نے پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ اس کے برعکس پاکستان کے دشمن بھارت پر امریکی نوازشات کی بھرمار ہونے لگی جس نے امریکی ایما پر ہی اس  افغانحکومت کی معاونت سے افغانستان میں اپنے دہشت گردوں کی تربیت کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہی دہشت گرد پاک افغان سرحد عبور کرکے پاکستان آتے اور یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے رہے جبکہ بھارت اس دہشت گردی کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال کر امریکہ کو اس سے بدگمان کرتا رہا۔ افغان جنگ میں لاجسٹک سپورٹ کے معاہدے کی بنیاد پر پاکستان نے اپنے چار اڈے امریکی نیٹو فورسز کے حوالے کئے جہاں سے ان کے طیارے اڑان بھر کر افغانستان کا تورابورا بناتے رہے اور پھر امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کے اندر بھی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے پاکستان کی خودمختاری پر بھی حرف آیا۔ جب سلالہ چیک پوسٹوں پر امریکی جنگی جہازوں کے حملے میں پاکستان کے دو درجن سے زائد جوان شہید ہوئے تو پاکستان کی حکومت کو اس پر طوعاً و کرہاً امریکی پالیسیوں کے خلاف سخت ردعمل اختیار کرنا پڑا‘۔ یہی وہ دور ہے جب عمران خان بطور حزب اختلاف رہنما حکومت کی امریکہ نواز پالیسیوں کے خلاف متحرک ہوئے اور انہوں نے ایک جلوس کی شکل میں سلالہ جا کر پاکستان کے اندر سے نیٹو سپلائی زبردستی رکوائی۔ یقینا انہیں افغان جنگ میں پاکستان کے امریکی فرنٹ لائن اتحادی والے کردار کے مضمرات کا ادراک ہونے کے باعث اس کردار پر تحفظات تھے جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہے۔ پاکستان کے معاملے میں امریکی پالیسی کا تسلسل ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس‘ دونوں کے ادوار حکومت میں برقرار رہا ہے۔ امریکہ افغانستان سے محفوظ واپسی کا راستہ بھی پاکستان کے ذریعے ہی نکال رہا ہے یقینا امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار والی غلطی نہیں دہرانی چاہئے جس میں پاکستان کو نقصان بھی اٹھاتا ہے اور امریکہ کی تاریخ رہی ہے کہ یہ اپنے صف اول کے اتحادی کے نقصانات کے ازالے کا بھی روادار نہیں ہوتا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایاز خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)