اٹھارہویں صدی میں ہونے والی جنگ میں فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرأ ہوتی تھیں اور ایک صدی بعد دوسرے عہد کی جنگ کا دور شروع ہوا‘ جس میں خودکار ہتھیاروں نے نیم خودکار ہتھیاروں کی جگہ لے لی۔ جنگ کا تیسرا عہد دشمن کی صفوں میں گھس کر وار کرنے کا آیا جس میں مہلک ترین ہتھیار استعمال ہونے لگے اور تیسرے جنگی عہد کی 3 خصوصیات میں ”رفتار‘ خفیہ اور اچانک وار“ کرنے کی صلاحیت کا استعمال ہو رہا ہے۔ روس کی فوج کے سربراہ ولیری گیراسیمو نے ایک جنگی نظریہ پیش کیا جسے اُن کے نام کی نسبت سے ’گیراسیمو نظریہ کہا جاتا اور یہ لائحہ عمل پانچ بنیادی اصولوں پر استوار ہے۔ 1: جنگ کی جائے لیکن جنگ کا اعلان نہ کیا جائے۔2: جنگ مسلط کرتے ہوئے کسی ملک میں گھسنا ضروری نہیں بلکہ یہ فاصلے پر رہ کر ریاستی اور غیرریاستی جنگجوؤں کے علاؤہ ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی لڑی جا سکتی ہے۔3: دشمن کے قریب رہا جائے۔ 4: ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال کیا جائے اور 5: نئی قسم کے ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے۔ اِس نظریئے کا یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ جنگ میں عسکری تناسب کم رکھا جائے اور غیرعسکری افرادی قوت کا اندازاً 4 فیصد زیادہ کیا جائے۔ اِسی قسم کا نظریہ امریکہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ 76ویں امریکی سیکرٹری خزانہ جنہیں اب قومی سلامتی کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں کا کہنا ہے کہ ”ممالک کے ساتھ فوج کے ذریعے جنگ کرنے کی بجائے امریکہ اپنے دشمنوں کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔“ پاکستان کی وزارت خزانہ اِس حقیقت کا اعتراف کرے یا نہ کرے لیکن قومی سلامتی معیشت کا کردار انتہائی اہم ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزارت خزانہ کا کردار بھی کلیدی ہے‘ جسے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگیں ہتھیاروں اور میدان جنگ کی بجائے معاشی اصولوں کی بنیاد پر لڑی جا رہی ہیں اور طاقتور ممالک اپنے دشمنوں کے دفاع کو کمزور بنانے کیلئے پہلے اُن کو معاشی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں آج کی جنگ سوشل میڈیا پر انحصار کرتی ہے جس میں ’فیس بک‘ ٹوئیٹر‘ واٹس ایپ‘ یوٹیوب‘ ٹک ٹاک‘ وی چیٹ‘ انسٹاگرام‘ وائیبو‘ ٹمبلر‘ بائیدو تائیبا‘ لنکڈان‘ کیو کیو‘ کیورا‘ ٹیلی گرام‘ لائن‘ سنیپ شاٹ‘ پنٹرسٹ‘ ریڈاِٹ‘ ڈسکارڈ‘ وی کے‘ کیوزون‘ وائبر اور مائیکرو سافٹ نامی کمپنیاں شامل ہیں۔ جنگ اور جنگ کے ہتھیار تبدیل ہو چکے ہیں اور اب گلی کوچے خون سے رنگین نہیں ہوتے۔مستقبل کی جنگ ’آن لائن‘ ہو چکی ہے‘ جس میں بڑے پیمانے پر افراتفری (ذہنی بے چینی) پھیلانے کیلئے ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے (24/7) جنگ جاری رہتی ہے اور اِس جنگ کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔ ایک ردعمل کی رفتار دوسرا ردعمل کا حجم اور تیسرا ردعمل کی قیمت۔ تصور کریں کہ 6 کروڑ پاکستانی (قریب تیس فیصد لوگ) ایسے ہیں جو مذکورہ ’آن لائن وسائل‘ کا استعمال کرتے ہیں اور اِن میں ہر سال 40 لاکھ نئے آن لائن صارفین کا اضافہ ہو رہا ہے۔ مستقبل کی جنگ کا نقشہ یہ ہوگا کہ حملہ آور اپنے دشمن کے ملک میں گھس بھی جائیں گے لیکن وہ ایسا جسمانی طور پر نہیں کر رہے ہوں بلکہ اُس سے ایک فاصلے پر ہوں گے۔مستقبل کی جنگ اخلاقیات کو تباہ کرنے سے متعلق ہے۔مستقبل کی جنگ سیاسی بھی ہے اُور مستقبل کی جنگ غلط معلومات پھیلانے سے بھی متعلق ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام