عدالت ِعظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) کی جانب سے کراچی میں اورنگی اور گجر نالے کے ساتھ موجود تعمیرات کو گرانے کی ہدایت دینے کے بعد مزید کئی خاندان سڑکوں پر آجائیں گے۔ دوسری جانب ایم ایل ون ریلوے اپ گریڈیشن پراجیکٹ کی زد میں بھی کراچی کی بائیس کچی آبادیاں آرہی ہیں۔ ماضی میں گھروں سے بے دخل کئے گئے افراد آج تک اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیر پر ہی بیٹھے ہیں۔ عدالت نے ان کی بحالی کے احکامات دیئے‘ جن پر بغیر کسی تاخیر کے عمل ہونا چاہئے تھا۔ شہروں میں رہنے والے نچلے طبقے کے لوگوں کیلئے رہائش اوّلین ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے اثاثے بینکوں میں نہیں رکھ سکتے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم جیسے اقدامات ان غریب افراد کیلئے فائدہ مند نہیں ہوتے کیونکہ ان کے پاس اس قسم کے اس قدر وسائل نہیں ہوتے جن کے عوض وہ بینک سے قرضہ لے سکیں۔ زیادہ تر افراد پکی ملازمتیں نہیں کرتے اور یوں ان کیلئے اپنی آمدن کے دستاویزی ثبوت فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یوں اکثر خاندان نالوں کے اطراف جیسی مشکل جگہوں پر گھر بناتے ہیں کیونکہ ان کے پاس رہنے کی کوئی اور جگہ نہیں ہوتی۔ ماضی میں کچی آبادیوں کو ریگولرائز کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور اس ضمن میں 1987ء کا سندھ کچی آبادی ایکٹ موجود ہے لیکن اس شہر میں قانون بھی شہر کی سیاسی صورتحال کے تابع ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی شاید یہ سمجھتی ہے کہ کچی آبادیوں کے مکین اس کے ووٹر نہیں اور ان کو رہائشی حقوق دینے سے حلقوں کی سیاست تبدیل ہوسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو مقامی جماعت شہری سندھ کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے وہ بھی کچی آبادیوں کی ریگولرائزیشن کے خلاف ہے۔ مختلف اوقات میں سیاسی رہنما مقبول ہونے کے لئے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ دوہزارسولہ میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ نے متعلقہ محکموں کو 100 کچی آبادیوں کو ماڈل آبادیاں بنانے کی ہدایات جاری کی تھیں تاہم بعد میں اس کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ غریب اور کمزور لوگوں کیلئے مکان سر چھپانے کی ایک جگہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ وہ اس شہر میں ان کی موجودگی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ دیہی افراد کو ثقافتی پابندیوں اور وڈیروں سے آزاد ہونے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ شہروں میں تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات موجود ہوتی ہیں ساتھ ہی یہاں دیگر معاشی و معاشرتی طبقات کے لوگوں سے ملنے اور بہتر زندگی گزارنے کے مواقع بھی ہوتے ہیں‘باضابطہ اور باقاعدہ طریقے سے تعمیر شدہ گھروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث‘ کئی نچلے درجے کے سرکاری ملازمین‘ کانٹریکٹ ورکرز‘ چھوٹے دکاندار‘ پرائمری سکول ٹیچر اور دیگر کے پاس کچی آبادیوں میں رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ چھوٹے‘ درمیانے اور بڑے پیمانے پر کام کرنے والی ہماری پیداواری صنعتوں کو بھی افرادی قوت ان کچی آبادیوں سے ہی ملتی ہے۔ اگر ان کی بے دخلی جاری رہی تو تجارتی معاملات اور سماجی ڈھانچے پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ جیسے جیسے زمین کا حصول مشکل تر ہوتا جارہا ہے ویسے ویسے ان آبادیوں میں لوگوں کی رہائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اورنگی‘ کورنگی‘ بلدیہ‘ لانڈھی‘ قصبہ کالونی اور کئی دیگر علاقوں میں چھوٹے پلاٹوں پر تعمیر اونچی عمارتیں نظر آتی ہیں جن کی بنادیں کمزور ہوتی ہیں۔ وہ شہر جہاں صرف امیروں کی ضروریات کا خیال رکھا جائے ناکام ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک اور اس خطے میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جو پالیسی ساز افراد کی رہنمائی کرسکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غریبوں کیلئے خصوصی طور پر زمین کی فراہمی کے منصوبے شروع کئے جائیں جہاں وہ اپنی آسانی اور سہولت کے اعتبار سے تعمیرات کرسکیں اور وہاں مستقل طور پر رہ سکیں۔بینکنگ کے شعبے کو بھی آگے بڑھ کر قرضوں کی فراہمی کیلئے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس وقت ہاؤسنگ لون (گھر کے لئے قرض) صرف اُن درخواست گزاروں کو ملتا ہے جن کے پاس پہلے سے کوئی زمین ہو یا پھر کوئی اور اثاثہ ہو۔ غریبوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اگر زمین کا حصول ہی ممکن نہیں بنایا جاسکتا تو پھر رہائش فراہم کرنے کا خواب، خواب ہی رہے گا۔ وفاقی حکومت کے پاس متاثرہ افراد کو ریلیف فراہم کرنے کا ایک موقع ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی ایسے بے گھر ہونے والے خاندانوں کیلئے کوئی پائلٹ پراجیکٹ شروع کرسکتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر نعمان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)