ایف اے ٹی ایف: سیاسی کردارو استعمال


عالمی سطح پر سرمائے کی غیرقانونی نقل و حرکت اور مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے کیلئے جملہ کوششوں کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک ایسا بین الاقوامی فورم ہے جسے تقریباً تین دہائیاں پہلے دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ مغربی ممالک نے اس ادارے کو بھی دیگر بہت سے بین الاقوامی اداروں کی طرح ایک ایسا ہتھیار بنا لیا جس کی مدد سے وہ کمزور ممالک کو دبانے کا کام لیتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال پاکستان ہے جسے ’ایف اے ٹی ایف‘ نے تمام شرائط ماننے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے باوجود ہنوز ’گرے لسٹ‘ میں رکھا ہوا ہے اور ادارے کے حالیہ فیصلے کے مطابق پاکستان آئندہ برس تک گرے لسٹ میں ہی رہے گا۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ’ایف اے ٹی ایف‘ نے جس حالیہ اجلاس کے دوران پاکستان کو اگلے سال تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا اسی اجلاس میں مغربی افریقہ کے ملک گھانا کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے گرے لسٹ سے نکال دیا گیا۔ پاکستان نے اس اجلاس میں جائزے کے لئے جو اپنی کارکردگی رپورٹ جمع کرائی تھی خود ایف اے ٹی ایف کے حکام نے بھی اسے تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے ہونیوالی سرمایہ کاری کے خاتمے کے لئے مضبوط عزم کا اظہار کیا لیکن پھر بھی پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ سے نکالا نہیں گیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں جس میں بالعموم کسی بھی بین الاقوامی فورم پر اور بالخصوص ’ایف اے ٹی ایف‘ میں پاکستان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ گزشتہ چند برس سے ایسے واقعات ایک تواتر سے رونما ہو رہے ہیں اور ان کے پیچھے جو اسباب کارفرما ہیں ان کا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی کے علاوہ اس کے دفاعی اور تزویراتی تعاون کے معاہدوں کے ساتھ بھی ہے۔ امریکہ ایک طرف پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی بات کرتا ہے اور افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلأ کے سلسلے میں پاکستان سے ہر طرح کا تعاون چاہتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ میں شامل کرانے اور اس میں رکھنے میں امریکہ نے بڑا کردار ادا کیا۔ ’ایف اے ٹی ایف‘ کے کچھ گزشتہ اجلاسوں کی کاروائیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ میں شامل کرانے اور اس میں رکھنے کیلئے کس طرح دوسرے ممالک کو دھونس اور دھاندلی سے آمادہ کیا۔ امریکہ کے علاوہ بھارت بھی پاکستان کو مختلف بین الاقوامی فورمز کے ذریعے دباؤ میں رکھنے کیلئے مختلف طرح کی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط اور تجاویز پر عمل درآمد کیلئے گزشتہ تین سال کے دوران چوبیس سے زائد ممالک کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام‘ منی لانڈرنگ اور سائبر ٹیرر ازم کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے باہمی سطح پر قانونی معاونت کی فراہمی کیلئے سرکاری سطح پر 232 درخواستیں بھیجیں لیکن ان میں سے کسی بھی ملک نے پاکستان کی ان درخواستوں کا مثبت جواب نہیں دیا۔ ان ممالک میں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ کینیڈا‘ سوئٹرزلینڈ اور سویڈن سمیت کئی مغربی ممالک بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے پیرس میں ’ایف اے ٹی ایف‘ کو جمع کرائی گئی سینکڑوں صفحات پر مشتمل اپنی خط کتابت میں انکشاف کیا کہ اس کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ان ممالک میں دہشت گردی کی مالی معاونت کا سراغ لگایا ہے لیکن ان ممالک کی طرف سے ٹھوس قانونی معاونت فراہم کی گئی اور نہ ہی ٹھوس معلومات دی گئیں تاکہ دہشتگردی اور دہشت گردوں کے مالی مددگاروں اور انکے ساتھیوں کیخلاف عدالتوں میں کاروائی کی جا سکے۔ ایف اے ٹی ایف اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کیساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں اور امریکہ اور بھارت سمیت مختلف ممالک پاکستان کیخلاف جو سازشیں کر رہے ہیں ان کے بارے میں حکومت تو مختلف مواقع پر بات کرتی ہے لیکن پاکستانی ذرائع ابلاغ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔ سیاسی معاملات اور اندرونی حالات کی وجہ سے حکومت پر تنقید ضرور کی جانی چاہئے لیکن میڈیا کو بین الاقوامی امور اور عالمی معاملات میں اپنے ملک کا بہرصورت دفاع کرنا چاہئے۔ اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ جب تک بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بارے میں منفی تاثر کا پردہ چاک کرتے ہوئے حقائق عوام تک نہیں پہنچائیں گے تب تک حکومت کو اندرونی سطح پر وہ قوت اور ہمت حاصل نہیں ہوگی جسکی بنیاد پر اِسے ’ایف اے ٹی ایف‘ سمیت بیرونی دباؤ اور مسائل سے نمٹنا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو پاکستان کے بارے میں ہر لفظ سوچ سمجھ کر شائع کرنا چاہئے کیونکہ کوئی ایک بھی خبر  پاکستان کیلئے آئندہ ’ایف اے ٹی ایف‘ اجلاس میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ذیشان صدیقی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)