حقیقت و ضرورت سے انکار نہیں کہ ’انتخابی اصلاحات‘ ناگزیر ہیں لیکن اِس سے متعلق قانون سازی ہر دور میں متنازعہ رہی ہے۔ حالیہ کوشش میں بھی اگرچہ انتخابی اصلاحات کا مسودہئ قانون پارلیمنٹ (ایوان زریں) سے منظور کروا لیا گیا ہے لیکن اِن کے بارے میں حزب اختلاف کی جماعتیں مسلسل تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ انتخابی اصلاحات سے متعلق مجوزہ بل میں شامل بنیادی و اہم شقیں جیسا کہ ’بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق‘ اور ’آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال‘ وغیرہ درحقیقت انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی غرض سے ہیں اور ’شفافیت پر مبنی یہی اقدامات‘ حزب اختلاف کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی سے ایک ہی روز میں اکیس قوانین (بل) منظور کروائے گئے‘ جن میں سے ایک ’الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2020ء‘ بھی شامل تھا اگرچہ حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف ایک ہی روز میں منظور کروائے گئے تقریباً تمام بلوں پر تنقید ہوئی مگر سب سے زیادہ تنقید الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر ہوئی‘ جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ بل کو قومی اسمبلی میں لانے سے قبل اِسے قائمہ کمیٹی میں زیر بحث لانا چاہئے تھا۔ ذہن نشین رہے کہ مذکورہ بل قومی اسمبلی (ایوان زریں) میں اتفاق رائے سے منظور کیا گیا مگر اب اہم مرحلہ اس کا سینیٹ سے منظور ہونا باقی ہے اور حزب اختلاف پرعزم ہے وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے رولز معطل کر کے بل منظور کروانے پر اپوزیشن جماعتوں نے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اہم سوال یہ ہے کہ الیکشن اصلاحات سے متعلق حزب اختلاف کے اعتراضات کیا ہیں اور اِس سلسلے میں حکومتی مؤقف کیا ہے۔مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے ”پاکستان میں شرح خواندگی تسلی بخش نہیں اور جس ملک کی اکثریت کو بذریعہ اے ٹی ایم پیسے نکلوانے نہ آتے ہوں وہاں ووٹنگ مشین کا درست استعمال کیسے ممکن ہو پائے گا؟ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جن ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے وہاں بھی یہ خاطرخواہ کامیاب ثابت نہیں ہوا اور اِس کی شفافیت پر شکوک و شہبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مثال موجود ہے کہ دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں ’آر ٹی ایس سسٹم‘ کا تجربہ کیا گیا جو عین وقت پر خراب ہو گیا اور اگر آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال ہوئیں تو اُن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے صدیاں درکار ہوں گی۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ الیکشن اصلاحات کے نام سے متنازعہ قانون سازی ’ملک کے بااثر اداروں‘ کو جمہوری اداروں میں مداخلت کے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء میں جس جلد بازی میں ترامیم متعارف کروائی ہیں اس سے یہی لگ رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔“ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ”حکومت حزب مخالف کی جماعتوں کے ساتھ الیکشن اصلاحات سمیت تمام اہم امور پر بات چیت کیلئے آمادہ ہے۔ جہاں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے رائے دہی اور رائے شماری کا تعلق ہے تو یہ شفاف ترین اور مؤثر طریقہ ہے اور عوام کا بھی اِس نظام پر دیگر طریقوں کے مقابلے زیادہ اعتبار ہے لیکن حزب اختلاف الیکشن اصلاحات کے معاملے پر لگاتار راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے کیونکہ انتخابات میں شفافیت کے پیش نظر انہیں اپنی واضح شکست نظر آ رہی ہے۔“ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے حوالے سے اگرچہ قانون سازی مکمل ہونا باقی ہے تاہم وفاقی بجٹ میں ووٹنگ مشینوں کی خریداری کیلئے رواں مالی سال کے لئے 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا تحریری مؤقف بھی سامنے آیا ہے جس میں ترجمان نے کہا تھا کہ ”رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں وفاقی وزرأ نے الیکشن کمیشن کے حکام کے ساتھ ملاقات میں بتایا کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے تیار کی جانے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ماڈل اگلے ماہ کے وسط میں تیار ہو کر آ جائے گا۔ قبل ازیں بھی ایکشن کمیشن کے حکام 2 بین الاقوامی کمپنیوں کی طرف سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا عملی مظاہرہ دیکھ چکے ہیں جو اطمینان بخش نہیں تھا۔ الیکشن اصلاحات کے مجوزہ بل میں ایک شق بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینا ہے اِس بارے میں نواز لیگ کا کہنا ہے کہ ”ان کی جماعت بیرون ممالک بسنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے مگر حکومت کی جانب سے سامنے والے ترمیمی قانون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کی تصدیق کا عمل کیسے مکمل ہو گا؟۔ حکومت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ اگر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے تو پھر انتخابات میں حصہ لینے کا حق بھی ان کے پاس ہوگا‘ تو ایسے حالات میں کیا قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا اور کیا دوبارہ حلقہ بندیاں کی جائیں گی؟ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ ”اگر ہم ملکی ترقی میں دیار غیر میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر اُن کو ووٹ کا حق دینے اور عام انتخابات میں حصہ لینے سے بھی نہیں روکنا چاہئے۔“ الیکشن اصلاحات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حکومت وقت اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کرے بلکہ یہ معاملہ دیگر سیاسی جماعتوں اور جمہوری روایت کو سامنے رکھتے ہوئے حل کیا جانا چاہئے۔ نواز لیگ کے دور میں جب انتخابی اصلاحات کی گئیں تو اس وقت تحریک انصاف نے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ کیا تھا اور آج نواز لیگ اختلاف رکھتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جس طرح الیکشن ایکٹ 2017ء اتفاق رائے سے بنایا گیا‘ اُسی طرح اگر حکومت کوئی ترمیم لانا چاہتی ہے تو حزب مخالف کی جماعتوں کو اعتماد میں لے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ذاکر جلیلی۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام