ٹیکس نیٹ میں اضافہ

حکومت کی آمدنی کا انحصار محصولات (ٹیکسیز) پر ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کاروبار کو دستاویزی شکل دی جائے تاکہ ’ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد (ٹیکس نیٹ)‘ میں اضافہ ہو۔ معیشت کے دستاویزی ہونے کے اُن طبقات پر عائد ٹیکس میں کمی آئے گی‘ جن پر اصولاً ٹیکس ہونا ہی نہیں چاہئے لیکن ارادے کی کمزوری‘ تخیل کی کمی‘ فیصلے لینے میں ناکامی اور سیاسی اتفاق رائے کی عدم دستیابی کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں حسب آمدنی اضافہ کرنے کی بجائے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جو قطعی طور پر منطقی (جائز) اور مسئلے کا نہیں۔ جب معیشت ’بوم بسٹ سائیکل‘ سے دوسرے چکر میں منتقل ہو رہی ہوتی ہے تو حکومتی فیصلہ ساز وہی کرتے ہیں‘ جس کی قبل ازیں وہ مخالفت (مذمت) کرتے رہتے ہیں۔ یہ بجٹ کا گراؤنڈ ہاگ ڈے ہے‘ جہاں پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر زیادہ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے‘ جبکہ جو لوگ کوئی ٹیکس یا کم سے کم ٹیکس ادا نہیں کرتے‘ وہ اِس پوری صورتحال سے فائدہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔
 گزشتہ دو دہائیوں کے دوران‘ اگر زیادہ نہیں تو اپنی آمدنی کی بنیاد کو بڑھانے کیلئے ہر پے در پے حکومت نے یا تو کارپوریٹ ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے یا ’ون آف ٹیکس‘ عائد کئے ہیں جو اکثر وقتی کی بجائے دائمی ہو جاتے ہیں‘ اِن سے معیشت میں موجود مراعات پر اثر پڑتا ہے اور اِس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے سرمایہ باضابطہ معیشت کو چھوڑتا رہتا ہے جبکہ غیر رسمی معیشت ترقی کرتی ہے جس کا ثبوت گزشتہ پانچ سالوں کے دوران زیرگردش نقد رقم میں اضافے کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی ایک طبقے کو حاصل مراعات کی بگڑی ہوئی نوعیت کے پیش نظر معاشی اصلاح اور زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے کے لئے معیشت میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کی بجائے غیر پیداواری اقدامات زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں جن سے معاشی ترقی بے معنی ہو جاتی ہے اور اگر حالیہ اصلاحات (کوششوں) کو بھی دیکھا جائے تو بالخصوص ٹیکس اقدامات کے ذریعے ریاست باضابطہ معیشت سے غیر رسمی معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے جیسا کہ گزشتہ حکومتوں نے کیا تھا۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران غیر رسمی معیشت کے حجم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جیسا کہ زیرگردش نقد رقم میں بھی اضافے کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے ذخائر اور سرکاری شعبے کے ذخائر کے تناسب کی صورتحال کو دیکھا جاسکتا ہے چونکہ نجی شعبہ باضابطہ معیشت میں سرمایہ کاری سے گریز کرتا ہے اِس وجہ سے حقیقی معنوں میں ٹیکس وصولی مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔ پالیسی کے تسلسل اور مستقل مزاجی کے فقدان نے نجی سرمائے کو اس مقام کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں حکومت پر کوئی اعتماد باقی نہیں اور عمومی رائے یہی ہے کہ حکومت ٹیکس چوروں کی بجائے ٹیکس دہندگان کو سزا دیتی ہے۔ ٹیکس ادائیگی سکڑتی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہا تو جلد ہی وہ وقت آئے گا جب حکومت صرف سرکاری شعبے پر ٹیکس عائد کرے گی اور متوازی معیشت بنانی پڑے گی جبکہ حقیقی معیشت بڑی حد تک غیر رسمی (غیردستاویزی) نوعیت کی ہوگی۔خراب پالیسی اقدامات کا سب سے زیادہ خمیازہ تنخواہ دار طبقے کو اُٹھانا پڑتا ہے جس ٹیکس دہندگان کی فہرست میں سب سے زیادہ ٹیکسیز ادا کرتے ہیں اور جنہوں نے مسلسل افراط زر کی وجہ سے نہ صرف حقیقی آمدنی میں کمی دیکھی ہے بلکہ اب وہ ایسے ماحول میں زیادہ ٹیکس بھی ادا کریں گے جہاں افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
 اس سے حقیقی آمدنی اور قوت خرید میں نمایاں کمی آئے گی۔ لوگ ٹیکس اپنی آمدنی پر زبردستی وصولی کی صورت ادا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جہاں ٹیکس ادا کرنا ممکن ہوتا ہے وہاں ٹیکس چوری کی کوشش کی جاتی ہے۔ درحقیقت مسخ شدہ مراعاتی سلسلے اور ٹوٹے ہوئے سروس ڈیلیوری ماڈل کے پیش نظر یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ملک سے تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک جا رہے ہیں اور اِس عمل کو ’برین ڈرین‘ کہا جاتا ہے جس میں وقت کے ساتھ تیزی آ رہی ہے۔ پے در پے حکومتوں کی جانب سے وسیع البنیاد ٹیکس نظام کی ضرورت ہے جس کے مالی پہلو طے کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں تنخواہ دار ٹیکس دہندگان اپنی آمدنی کا ایک اہم حصہ آبادی کے غیر تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں ادا کر رہے ہیں جو بڑی حد تک غیر رسمی ہے۔ ترغیبی ڈھانچہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس صلاحیت میں شامل ہونا معاشی معنی نہیں رکھتا جس کے لئے ویلیو ایڈڈ مہارت کی ضرورت ہو جب کوئی غیر رسمی معیشت کا حصہ بنتا ہے اور وہ انکم ٹیکس کی ادائیگی کم سے کم کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس اور سروس فراہمی کا ڈھانچہ گزشتہ چند برس سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
 اگر اسے حل نہ کیا گیا تو اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ حکومت کی غیر ٹیکس شدہ طبقات پر ٹیکس لگانے میں مصلحت سے کام لینے کی وجہ سے پہلے ہی معیشت کا ڈھانچہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اگر یہ سلسلہ مزید چند سال تک جاری رہا تو بالآخر پاکستان کم ترقی اور کم ٹیکس جیسے چکر (لوپ) میں پھنس جائے گا کیونکہ پے در پے حکومتیں آمدن بڑھانے کے لئے اصلاحی اقدامات کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ ٹیکس کے حوالے سے جب اصلاحی اقدامات کی بات کی جاتی ہے تو اِس سے مراد وہ ٹیکس معافیاں ہوتی ہیں‘ جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ٹیکس ادا کرنا کوئی معاشی احساس یا قومی ذمہ داری نہیں ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جب حکومت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کراتی ہے تو ٹیکس ادائیگی کا سلسلہ رک جاتا ہے اور سرمایہ دار ہر چند برس بعد ایمنسٹی اسکیم کا انتظار کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کو جی ڈی پی کے تناسب میں ٹیکس وصولی میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے جو فی الوقت بہت کم ہے لیکن یہ کام آبادی کے مینوفیکچرنگ اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا کر نہیں کیا جاسکتا جبکہ بالواسطہ ٹیکس نظام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں اضافہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب حسب آمدنی مزید طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اسی نقطہ نظر کو لامحدود بار دہرایا گیا ہے لیکن عملاً زیادہ کچھ حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عمار حبیب خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)