وفاقی میزانیے کے بارے میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ”یہ پہلا ایسا بجٹ ہے جس میں معیشت کی بحالی کامنصوبہ ہے۔ حکومت نے کم آمدنی والے اور تنخواہ دارپرکم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کی ہے جو غربت کے خاتمے کے مقصد سے ہے۔“ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو کلی معاشی استحکام کی طرف بڑھاتے ہوئے پہلا قدم اُٹھا لیا گیا ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت معاشی خود کفالت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہماری قومی سلامتی کا معاشی انحصار سے بہت گہراتعلق ہے۔“ یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک مگر قوم اس معاملے میں وزیراعظم اور ان کی حکومت کے ساتھ بھی کھڑی ہے لیکن عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ معاشی استحکام اور بہتری کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں،کیا مراعات یافتہ طبقات یہ بوجھ عوام کو منتقل تو نہیں کریں گے؟ معاشی اصلاحات کے سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ریئل اسٹیٹ بروکرز‘ بلڈرز‘ ہاؤسنگ سوسائٹی ڈویلپرز‘ کار ڈیلرز‘ ریسٹورنٹس اور سلونز وغیرہ کو چند ماہ میں ’مشاورت کے ساتھ‘ ٹیکس کے دائرہئ کار (ٹیکس نیٹ) میں لایا جائے گا۔ سماجی رابطہ کاری کے پلیٹ فارم ’ٹوئٹر‘ پر اپنے بیان میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت بتدریج لاکھوں دکان داروں کو ٹیکس نیٹ میں لائے گی قابل تعریف اور قابل ذکر ہے کہ حکومت نے ”سپر ٹیکس“ کے نام سے نہایت ہی ضروری و اچھا اقدام کیا ہے لیکن اس اقدام کی کامیابی کے لئے فول پروف منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صنعت کاروں کے روئیوں اور بیانات سے یہ بات واضح ہے کہ وہ کبھی بھی سپر ٹیکس کا بوجھ خود نہیں اٹھائیں گے بلکہ اسے صارفین یعنی عام لوگوں کی طرف منتقل کردیا جائے گا۔ معاشی استحکام کے لئے حکومت جو کوششیں کررہی ہے ان کو عام آدمی کی تائید و حمایت اُسی وقت حاصل ہوگی جب عوام کی مالی مشکلات میں کمی آئے اور عوام کو صاف نظر آنے لگے کہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے حکومت مراعات یافتہ طبقے سے بھی قربانیاں لے رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے اور اس نے اس قلیل مدت میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہیں۔حکومت کی طرف سے مالی سال دوہزاربائیس تیئس کا وفاقی میزانیہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جارہا بلکہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے بہت سے فلاحی اقدامات کئے جارہے ہیں،اگر یہ سچ ہے تو پھر عوام کو ریلیف کااحساس جلد دلانا ضرور ی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ”سخت فیصلوں کے ذریعے ملک کو معاشی بحران سے نمٹنے کے قابل بنائیں گے۔“ یہ ٹھیک ہے کہ ہماری معیشت اِس وقت جس بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے اس میں حکومت پر بہت دباؤ ہے اور اس صورتحال میں عوام کو بہت زیادہ ریلیف فراہم نہیں کیا جاسکتا لیکن حکومت کی طرف سے جو اقدامات سامنے آرہے ہیں ان کے اثرات سامنے آئیں گے تو حقیقی صورتحال واضح ہوجائے گی۔ وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اتحادی حکومت کے اقتدارمیں آنے پر دو راستے تھے‘ پہلاراستہ تھا الیکشن کرائیں اورمعیشت کوٹوٹ پھوٹ کاشکارہونے کے لئے چھوڑدیں جبکہ دوسرا راستہ یہ تھاکہ پہلے اقتصادی چیلنجز سے نمٹا جائے۔ ہم نے پاکستان کو معاشی دلدل سے بچانے کا انتخاب کیا اور پاکستان کو پہلے سامنے رکھا۔“ شہباز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ متمول طبقہ بوجھ بانٹ کر قومی فرض پوراکرے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں متمول طبقات ہمیشہ بوجھ اٹھانے سے گریزاں رہے ہیں۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ متمول طبقے کو ملنے والی مراعات اور سہولیات کو اگر مکمل طور پر ختم نہیں بھی کرسکتی تو اس میں واضح کمی کرے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فیصل شاکری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)