موسمیاتی تبدیلی: چیلنج

کرہئ ارض پر رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے محرکات میں سرفہرست انسانوں کی مداخلت ہے۔ جب ہم موسمیاتی تبدیلی کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت یہ آب و ہوا کے اُس نظام کا حوالہ ہوتا ہے جو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے طویل مدتی تبدیلیوں کا مجموعہ ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اچانک نمودار ہوئی ہوں بلکہ یہ ماحول کے لئے نقصان دہ اشیاء (فوسل ایندھن) کو جلانے‘ جنگلات کی کٹائی اور صنعتی و زرعی طریقوں سے ماحول کو پہنچنے والا نقصان ہے کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں (بنیادی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ) کا اخراج ماحول کی تباہی کا باعث بنا ہے۔ مذکورہ گرین ہاؤس گیسیں زمین کی فضا میں گرمی کو قید رکھتی ہیں‘ جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے بارش کے معمولات تبدیلی ہوتے ہیں۔ سمندر میں پانی کی سطح میں بلند ہوتی ہے۔ ہیٹ ویو (گرمی کی لہر) خشک سالی‘ سیلاب اور طوفان جیسے شدید محرکات کا باعث بنتی ہے۔ سائنسی اتفاق رائے یہ ہے کہ انسانی سرگرمیاں موجودہ موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ ہیں‘ جو ماضی میں دیکھی جانے والی قدرت کی طرف سے آب و ہوا کی تبدیلی سے کہیں زیادہ تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ سال 2019ء میں پاکستان میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج سالانہ 433 ملین ٹن تھا جو عالمی اخراج کے 0.9فیصد (یعنی قریب ایک فیصد) کے مساوی ہے لیکن پاکستان کو شدید موسمیاتی تبدیلی کے نتائج بھگتنا پڑے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج آب و ہوا کی تبدیلی صحت‘ صاف ہوا‘ پینے کے صاف پانی‘ کافی خوراک اور محفوظ پناہ گاہوں کے سماجی و ماحولیاتی عوامل کو متاثر کرتی ہیں۔ سال 2030ء سے 2050ء کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غذائی قلت‘ ملیریا‘ ڈائریا اور گرمی کے دباؤ سے ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ اضافی اموات ہوتی ہیں۔ ہمیں مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے نقصانات کا سامنا کرنے کے لئے پیشگی تیاری کئی وجوہات سے اہم ہے۔ سب سے پہلے عوام کی تربیت و صلاحیت  میں اضافہ کیا جائے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے وابستہ خطرات کم کرنے اور ان سے پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری مہارتوں‘ علم اور وسائل کا فروغ ضروری ہے۔ جب ہم صلاحیت کی بات کرتے ہیں تو قوم قبیلے اور برادریاں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اپنے طور اقدامات و تیاری کر سکتی ہیں جو قدرتی آفات‘ انتہائی موسمی واقعات‘ اور آب و ہوا سے متعلق دیگر اثرات سے ہونے والے نقصانات کو بڑی حد تک کم کر سکتی ہے۔ صلاحیت میں اضافے کے ساتھ ماحول دشمن گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوششیں بھی ضروری ہیں کیونکہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ صاف توانائی کے حصول اور پائیدار طریقوں کو نافذ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دے کر‘ افراد اور تنظیمیں اپنے کاربن فٹ پرنٹ کم کرسکتی ہیں اور آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی عالمی کوششوں میں بھی شریک ہو سکتی ہیں۔ اگر ایسا کر لیا گیا تو اِس سے اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے صلاحیت کی تعمیر کے معاشی فوائد بھی ہوسکتے ہیں مثال کے طور پر‘ قابل تجدید توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اقتصادی ترقی کو فروغ مل سکتا ہے۔ اسی طرح زراعت‘ جنگلات اور دیگر شعبوں میں پائیدار طریقوں کو نافذ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینے سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ذریعہئ معاش بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ماحول کے تحفظ اور اِس کے تقاضوں کو بطور ذمہ داری محسوس کرنے کی صلاحیت سے اقدامات کی ترغیب مل سکتی ہے جو آب و ہوا کے تحفظ کے لئے ضروری ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی صلاحیت کی ضرورت ہے۔ ایک سرسبز مستقبل کی طرف قدم بڑھانے کے لئے منظم سہ رخی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں مالی وسائل‘ تکنیکی معاونت اور انسانی استعداد کار میں اضافہ شامل ہوتا ہے۔ گزشتہ پچاس برس سے سمندروں نے گلوبل وارمنگ کا نوے فیصد حصہ جذب کیا ہے۔ اندازہ ہے کہ سال دوہزارپچاس تک سمندر کے پانیوں میں سمندری حیات سے زیادہ پلاسٹک تیر رہا ہوگا۔ ہمیں پلاسٹک سے پاک طرز زندگی کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستان کے آبی انفراسٹرکچر‘ خاص طور پر نئے آبی ذخائر اور ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ پاکستان زراعت پر مبنی معیشت ہے جس کیلئے پانی اہم وسیلہ ہوتا ہے۔ ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر سے پانی کا بہاؤ کنٹرول کرنے کے ساتھ پن بجلی پیدا کرنے کے مواقع پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شرمیلا فاروقی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)