قوت مدافعت اور ادویات

ایسی ادویات جو جسم میں موجود مختلف بیماریوں کے جرثوموں کو بیماری کی صورت حاوی ہونے سے روکتی ہیں اُنہیں مائیکروبیالس کہا جاتا ہے جن میں اینٹی بائیوٹکس‘ اینٹی وائرل‘ اینٹی فنگل اور اینٹی پروٹوزول ادویات شامل ہوتی ہیں۔ یہ ادویات انفیکشن کے علاج کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور انہیں صرف اور صرف مستند معالج کے مشورے کے مطابق یعنی مناسب طریقے سے استعمال کیا جانا چاہئے۔ انسانی زندگی کو بچانے اور اِسے متعدی بیماریوں کے خلاف صحت مند رکھنے میں اِن ضروری ادویات کا بڑا ہاتھ ہے۔ متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے ذریعے عمومی طور پر مجموعی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس بیکٹیریا کے انفیکشن کا علاج کرتی ہیں اور اسے منطقی طور پر تجویز کیا جاتا ہے یعنی صحیح وقت پر اور صحیح خوراک کے طور پر مرض کے علاج کے لئے اینٹی مائیکروبیل کا انتخاب کرنا‘ صحت کے پیشہ ور افراد کے ذریعہ عمل میں لایا جانا چاہئے۔ کئی ایسے ممالک ہیں جہاں آمدنی کے لحاظ سے کم اور متوسط طبقات کے مریضوں کی اِن ادویات تک رسائی پر پابندی عائد نہیں اور وہ ایسی جراثیم کش ادویات اپنی مرضی سے جب چاہیں آزادانہ طور پر خرید سکتے ہیں۔ اس طرح کے رویئے اور طریقے علاج سے زیادہ بیماری کے پھیلنے اور بسا اوقات انسانی صحت کے لئے بھی زیادہ نقصان کا باعث بنتے ہیں اور اینٹی بائیوٹک کے استعمال اور اِس کے غلط استعمال کے فروغ سے نت نئی بیماریاں بطور سائیڈ ایفکٹس بھی پیدا ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ جراثیم کش ادویات جن سے علاج ہونا چاہئے لیکن وہ کسی مریض کی صحت کی جسمانی قوت مدافعت یعنی بیماریوں کے خلاف پائی جانے والی قدرتی مزاحمت کو کمزور (خراب) کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت کیا ہوتی ہے؟ اے ایم آر جراثیم کش ادویات کے غیرمحتاط استعمال جرثوموں (بیکٹیریا‘ پیراسائٹس‘ وائرس‘ پھپھوندی وغیرہ) کی تعداد میں کمی کی بجائے اُن میں اضافہ کرتا ہے مثال کے طور پر اینٹی بائیوٹکس کی وجہ سے مزاحمتی انفیکشن کا علاج کرنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ جرثوموں میں اندر بھی قوت مدافعت ہوتی ہے اور وہ اپنے خلاف کارگر ادویات کے اثرات کم کر دیتے ہیں‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ’اے ایم آر‘ عالمی سطح پر صحت ِعامہ کے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے‘کووڈ 19 (کورونا) وبائی امراض کے دوران جراثیم کش ادویات کے غلط استعمال یا زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ مسئلہ بدتر صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس میں متعدی بیماریوں‘ صحت کی دیکھ بھال کی ہنگامی صورتحال اور بیماریوں کا پھیلنا یعنی صحت سے جڑے زیادہ تر مسائل زیادہ گھمبیر شکل اختیار کر گئے ہیں۔ یہ بات معالجین کے لئے تشویش کا باعث ہے کہ ایسی بیماریاں جو پہلے نومولود بچوں میں دیکھنے میں نہیں آتی تھیں لیکن اب وہ بچوں اور معمر (بزرگ) افراد میں ایک جیسی دیکھنے میں آ رہی ہیں اور یہ سب ادویات کے غلط (غیرمحتاط) استعمال کی وجہ سے جس سے مرض تو ختم نہیں ہوا لیکن مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ کوئی مریض کسی متعدی بیماریوں کا مؤثر علاج حاصل کرنے کے لئے صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات سے کس طرح فائدہ اُٹھاتا ہے لیکن اینٹی مائیکروبیل مزاحمت کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے علاج معالجہ طویل ہو جاتا ہے یا وہ خاطرخواہ طریقے سے مکمل نہیں ہوتا اور مرض کی شدت کم ہونے کے بعد پھر سے بڑھ جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر بیکٹیریا مزاحمتی بن گئے ہیں اور دستیاب اینٹی بائیوٹکس اب اُن کے خلاف کام نہیں کر پا رہیں۔ اینٹی بائیوٹکس مزاحمت کی وجہ سے پھیلنے والا انفیکشن الگ سے تشویش کا باعث ہے۔ کسی انفیکشن کے علاج کے لئے دستیاب وسائل ہر سال پہلے سے زیادہ ہونے کی بجائے محدود ہو رہے ہیں اور اسی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مزاحمتی بیکٹیریا کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی نئی اینٹی بائیوٹکس موجود نہیں ہیں لہٰذا موجودہ اینٹی بائیوٹکس کو زیادہ ذمہ داری سے استعمال کیا جانا چاہئے اور یہ بات اپنی جگہ اہم و ضروری ہے کہ ادویات صرف اُسی وقت اور اُسی صورت استعمال کرنی چاہیئں جبکہ اِن کے استعمال کا مشورہ کسی معالج  نے دیا ہو۔ سینئر ہیلتھ منیجرز‘ ڈاکٹروں‘ نرسوں اور تمام متعلقہ ہیلتھ کیئر پروفیشنلز سمیت مختلف سطحوں پر اینٹی بائیوٹکس اسٹیورڈشپ ٹریننگ پروگرام وقت کی ضرورت ہیں۔ وزارت ِقومی صحت کو ترجیحی اقدامات کرنے چاہیئں جس میں صحت کے نظام کو مضبوط بنانے‘ بیماریوں پر نظر رکھنے‘ بیماریوں کے خلاف عوام میں آگاہی بڑھانے‘ ادویات تجویز کرنے یا اُن کی تقسیم سے متعلق پالیسی اور صحت کے ایک جامع نقطہ نظر پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ مستقبل میں مزاحمتی انفیکشن کی وجہ سے اموات میں اضافے کا امکان ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عبدالجلیل خان اور ڈاکٹر حنا جاوید۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)