گندم کی درآمد ہی کیوں؟

انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں قائم نگران حکومت کے دور میں گندم کی فاضل مقدار درآمد ہونے اور بھاری ادائیگی کے بوجھ سے متعلق تحقیقات نے ملک کے گرماگرم سیاسی منظرنامے کو مزید گرمایا ہوا ہے‘ سابق نگراں وزیراعظم کاکہنا ہے کہ ملک میں 4 ملین میٹرک ٹن گندم کی کمی تھی جبکہ درآمد3.4 ملین میٹرک ٹن کی گئی‘دریں اثناء98ارب51 کروڑ روپے کی مزید گندم امپورٹ کرنے کا انکشاف بھی ہواہے‘ وزیراعظم سے گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کامران علی افضل نے ملاقات کی‘ شہبازشریف نے گندم کے حوالے سے غلط فیصلوں کے ذمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ طلب کی ہے‘ گندم کی درآمد سے متعلق حقائق تو انکوائری رپورٹ آنے پر ہی سامنے آئینگے‘ فی الوقت وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت 18لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدے گی اور یہ کہ کسانوں کی محنت کو کسی کی غفلت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا جائیگا خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت نے کل سے گندم خریداری مہم شروع کرنے کااعلان کیا ہے‘گندم کی ضرورت کے مقابلے میں درآمد سے متعلق فیصلے اپنی جگہ‘ سوال یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان گندم درآمد ہی کیوں کرے؟پاکستان زرعی ملک ہے آبادی کے بڑے حصے کا انحصار زراعت پر ہے پاکستان کے پاس موجود نہری نظام کو دنیا میں مثالی قرار قرار دیا جاتا ہے اسکے باوجود بجائے اسکے کہ پاکستان خود گندم اور دیگر زرعی اجناس برآمد کرے الٹا انکی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑرہا ہے‘ فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے ذمہ دار اداروں کو اس ضمن میں سقم اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے کیساتھ اصلاح احوال کی جانب بڑھنا ہوگا ملک میں وسیع اراضی کو صرف آبی ذخائر کی تعمیر کیساتھ زیر کاشت لایا جاسکتا ہے آبی ذخائر صرف زرعی پیداوار بڑھانے میں نہیں بلکہ بجلی کی پروڈکشن میں اضافے اور سیلابوں کی روک تھام میں بھی معاون ہو سکتے ہیں‘ اس کیساتھ ٹیوب ویلوں کیلئے شمسی توانائی کا استعمال بھی ثمرآور نتائج دے سکتا ہے ایک ایسے وقت میں جب ملک معیشت کے شعبے میں شدید مشکلات کا شکار ہے زرعی پیداوار میں اضافہ اور زرعی اجناس کی درآمدات کا حجم کم کرکے ان مشکلات میں کمی ممکن بنائی جاسکتی ہے اس سب کیساتھ زراعت کے فروغ‘ زرعی تعلیم اور اس شعبے میں ریسرچ کیلئے قائم مرکز اور صوبوں کے وسیع نیٹ ورک کی کارکردگی بڑھانے اور جدید ٹیکنالوجی سے ان اداروں کو لیس کرنیکی ضرورت کا احساس بھی کرنا ہوگا موجودہ اقتصادی مشکلات میں صرف قرضوں کے حصول کیلئے کوششوں اور قرض دینے والوں کی شرائط پرعملدرآمد پر توجہ مرکوز رکھنے پر مسائل کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائیگا ناگزیر ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کیلئے راستے تلاش کئے جائیں اس مقصد کیلئے زراعت سمیت مجموعی طور پر منفی پیداوار بھی بڑھانا ہوگی درآمدات پر سے انحصار کم کرنے کیساتھ ایکسپورٹ کا حجم بڑھانا بھی ناگزیر ہے اس میں ضروری ہے کہ صنعتی اور زرعی شعبوں میں پیداواری لاگت کم سے کم ہوتاکہ عوام کو ریلیف ملے اس سب کیلئے ضروری ہے کہ برسرزمین حقائق کی روشنی میں حکمت عملی ترتیب دی جائے۔