صوبائی اسمبلی میں جمعہ کے روز رواں مالی سال کے لئے پیش ہونے والا خیبر پختونخوا کا بجٹ صوبے کی اقتصادی صورتحال سے متعلق اعدادوشمار کیساتھ عکاسی کرتاہے‘ اسمبلی میں پیش ہونے والے بجٹ کا حجم1360 ارب روپے ہے‘محصولات کا والیوم 1456 ارب جبکہ اخراجات1360 ارب روپے بتائے جاتے ہیں‘اسی طرح96 ارب روپے سے زائد کیساتھ اس میزانیے کو فاضل قرار دیا جارہا ہے‘ اسمبلی میں اسی روز306 ارب52 کروڑ روپے کا ضمنی بجٹ بھی پیش ہوا‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وطن عزیز میں معیشت کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے‘ کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں کا حجم وقت کیساتھ روز بروز بڑھتا چلا جارہاہے‘قرضوں کے حصول اور قرض دینے والوں کی شرائط پرعملدرآمد کیلئے پوری سرکاری مشینری مصروف عمل رہتی ہے ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کے اثرات صوبوں کی اکانومی پر بھی مرتب ہو رہے ہیں خیبرپختونخوا میں صوبے کے محصولات اور آمدن سے متعلق اعدادوشمار نے بجٹ کو سرپلس بنادیا ہے‘ دوسری جانب ملک کے دوسرے حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی عام شہری مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بنیادی شہری سہولیات کے فقدان اور سروسز کے حصول میں مشکلات کے باعث اذیت کا شکار ہے‘ رواں مالی سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے جبکہ نئے مالی سال کیلئے بجٹ کی تیاری وفاق اور صوبوں میں جاری ہے‘ اس اہم مرحلے پر جبکہ بجٹ سے متعلق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطالبات کی فہرست بھی موجود ہے‘ضرورت مرکز اور صوبوں کی سطح پر عوام کیلئے ریلیف یقینی بنانے کی ہے‘یہ ریلیف فوری اقدامات کے طور پر فراہم کرنے کیلئے کسی اضافی فنڈ کا متقاضی نہیں‘ اس کیلئے ضرورت مہیا وسائل اور افرادی قوت کے درست استعمال اور نگرانی کے موثر نظام کی ہے‘ اس ریلیف میں صرف مارکیٹ کنٹرول کرکے عوام کو مصنوعی مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ سے چھٹکارہ دلایا جا سکتا ہے اس مقصد کیلئے اگر منڈی میں روزانہ کی بنیاد پر دو چار چھاپوں پر ہی انحصار ہوتا رہا تو اصلاح احوال ممکن نہیں ہوگی‘ اس مقصد کیلئے ضرورت ایک کل وقتی محفوظ نظام کی ہے کہ جو برسرزمین نتائج دے سکے‘ خدمات کے شعبوں میں حکومتی اقدامات اپنی جگہ قابل اطمینان بھی ہوں اور بھاری فنڈز بھی جاری ہو جائیں جب تک لوگوں کو عملی طورپر ریلیف نہ ملے تو ان کیلئے سب کچھ بے معنی ہی رہے گا‘اس کے لئے سروسز کے اداروں میں کڑی نگرانی کا انتظام اور شکایات کے بروقت ازالے کی خاطر اقدامات کی ضرورت کا احساس کرنا ہوگا‘اسی طرح میونسپل سروسز میں بھاری فنڈز کے اجراء اور خدمات میں توسیع کا انتظار کرنے کی بجائے اگر مہیا وسائل کے ساتھ عوامی سطح پر تعاون حاصل کرکے اصلاحات کی جانب بڑھا جائے تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں اس سب کے لئے وسیع مشاورت کے ساتھ ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔