ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کو بجلی اور گیس کے بلوں میں مزید اضافے کی یقین دہانی کرادی ہے‘ اس حوالے سے مہیا تفصیلات کے مطابق درپیش صورتحال میں برسرزمین مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف علاقوں اور صنعتوں کیلئے گیس کی قیمتوں میں فرق کم کرنے کیلئے حکمت عملی وضع کی جارہی ہے‘ اس کیساتھ واجبات کی وصولی کیلئے طریقہ کار بھی وضع کیا جارہا ہے گردشی قرضے کی روک تھام کیلئے صارفین سے مکمل کاسٹ ریکوری کا پلان بھی تیار کیا جارہا ہے آئی ایم ایف کی جانب سے دی جانے والی مطالبات کی فہرست میں تمام کھاد کمپنیوں سے گیس کی پوری قیمت وصول کرنے اور زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی بلوں میں موجود سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جارہاہے آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبات کی فہرست ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب معیشت کو درپیش شدید مشکلات میں نئے مالی سال کیلئے قومی بجٹ کی تیاری کا کام جاری ہے‘ یہ بجٹ ایسے وقت میں تیار ہو رہاہے کہ جب اکانومی کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہے بیرونی قرضوں کیساتھ اندرونی اور گردشی قرضوں کا حجم تشویشناک صورت اختیا ر کئے ہوئے ہے ہر نئے قرضے کیلئے رابطہ کرنے پر قرضہ دینے والوں کی جانب سے مطالبات کی فہرست پیش ہونا معمول بن چکا ہے‘ اس فرست پر عملدرآمد حکومت کی مجبوری بن جاتا ہے جبکہ اس فہرست کے مطالبات کا بوجھ عوام پر ہی ڈال دیا جاتا ہے قرضہ دینے والوں کے مطالبات تسلیم کرتے کرتے اس وقت ملک کا عام شہری گرانی کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے اس شہری کی مشکلات کا گراف ہر آنے والے نئے قرضے کیساتھ مزید بڑھ جاتا ہے اس صورتحال سے نکلنے کیلئے ضرورت قرضے حاصل کرنے کیلئے حکمت عملی کی نہیں بلکہ قرضوں سے چھٹکارے کیلئے پلاننگ کی ہے اس مقصد کیلئے دیگر عوامل کیساتھ ضرورت سیاسی استحکام کی بھی ہے اس حکمت عملی کیلئے ضرورت قومی قیادت کے درمیان مشاورت کی بھی ہے جبکہ صورتحال اس سب کے برعکس ہے اس وقت ملک کا سیاسی منظرنامہ بدستور گرما گرمی کاشکار ہے اس گرماگرمی کو قومی قیادت کے درمیان بیانات کی شدت کو جمہوری عمل کا حصہ قرار دیا جارہا ہے تاہم اس کے ساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ کم از کم اہم قومی امور پر مل بیٹھ کر بات کی جائے اس بات چیت میں یقینی بنایا جائے کہ باہمی مشاورت سے طے ہونیوالی حکمت عملی حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہونے پائے اس حکمت عملی کی ضرورت خود برسرزمین حالات اجاگر کر رہے ہیں خصوصاً عوام کو درپیش مشکلات متقاضی ہیں کہ عوام کی قیادت اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے ماضی قریب میں اس حوالے سے میثاق معیشت کی بات بھی ہوتی رہی ہے اس کو بھی عملی شکل دینے پر بات کی گنجائش رکھی جائے تاکہ معاشی استحکام کیساتھ عوام کی مشکلات کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکے۔