وفاقی حکومت نے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت خیبرپختونخوا کو 623 ارب 94کروڑ روپے جاری کردیئے ہیں‘ این ایف سی کے تحت قبائلی اضلاع کیلئے ادائیگی ابھی تک نہیں ہوئی‘ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ نیا این ایف سی ایوارڈ گزشتہ گیارہ سال سے تشکیل نہیں دیا گیا‘ دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت صوبے کے وفاق کے ذمے واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ بھی دہرا رہی ہے‘ خیبرپختونخوا بندرگاہ سے دور ہے صوبے کا جغرافیہ دشوارگزار ہے‘ یہ صوبہ طویل عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین کا میزبان بھی ہے‘خیبرپختونخوا کو امن وامان کے حوالے سے درپیش چیلنج سے بھی انکار کی گنجائش نہیں‘اس صوبے کے انفراسٹرکچر کے حوالے سے دشواریوں کاسامنا بھی ہے‘صوبے کا حصہ بننے والے قبائلی اضلاع میں تعمیر و ترقی اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی کثیر فنڈز کی متقاضی ہے جس کیلئے شیئر دینے کا کہا بھی گیا ہے‘ خیبرپختونخوا کو درپیش مشکلات کے ساتھ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ اس صوبے کے مختلف ہیڈز میں کثیر واجبات بھی وفاق کے ذمے ہیں‘ان میں پن بجلی کا منافع بھی ہے جبکہ اس منافع کی شرح کا تعین بھی ہونا ہے جس کیلئے ماضی قریب میں سفارشات آفتاب غلام نبی قاضی فارمولے کی صورت میں موجود بھی ہیں‘ ان پر عملدرآمد کی صورت میں صوبے کے پن بجلی منافع کی مد میں واجبات کا حجم مزید بڑھ سکتا ہے‘ تیل اور گیس کی رائلٹی کی مد میں بھی واجبات ہیں‘ سیاسی گرماگرمی اور تناؤ سے متعلق بحث میں الجھے بغیر یہ ساری صورتحال متقاضی ہے کہ خیبرپختونخوا کی معیشت مستحکم بنائی جائے اس ضمن میں واجبات کی ادائیگی کیساتھ صوبے میں صنعت و زراعت کے شعبوں میں خصوصی مراعات اور سہولیات پر مشتمل پیکیج بھی ناگزیر ہے‘ضروری یہ بھی ہے کہ یہاں صنعتی اداروں کو سستی بجلی دی جائے‘اس مقصد کیلئے پن بجلی کی پیداوار میں اضافے کی گنجائش بھی موجود ہے ضروری یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخوا کو جس طرح وسطی ایشیائی ریاستوں کیلئے تجارتی گیٹ وے قرار دیا جاتا رہا ہے اسے عملی شکل دینے اور زیادہ سے زیادہ ثمر آور نتائج کے حصول کے لئے تمام سہولیات کی فراہمی بھی ضروری ہے‘ اس سب کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا مدنظر رکھنا ہوگا کہ ملکی معیشت کے تناظر میں درپیش مشکلات اور خیبرپختونخوا ہو یا پھر کوئی اور صوبہ اسے واجبات کی ادائیگی نہ ہونے پر پیش آنے والی دشواریوں کا اثر عوام پر بھی پڑتا ہے ملک کا عام شہری پہلے ہی گرانی کے ہاتھوں پریشان ہے اس وقت مرکز اور صوبوں کی سطح پر مالی معاملات طے کردینے کے ساتھ ضروری ہے کہ ملک کے مجموعی معاشی استحکام کی جانب بڑھا جائے جس کے لئے دیگر عوامل کے ساتھ ضروری ہے کہ قومی قیادت باہمی مشاورت سے اقتصادی شعبے میں بہتری کے لئے حکمت عملی تشکیل دے۔