وزیراعظم شہبازشریف نے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ریاستی ملکیتی اداروں کو چھوڑ کر دیگر تمام حکومتی ملکیت کے اداروں کی نجکاری کا اعلان کر دیا ہے‘ منگل کے روز وزارت نجکاری کے امور سے متعلق اجلاس کی کاروائی کے حوالے سے وزیراعظم آفس سے جاری تفصیلات کے مطابق شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارے چاہے وہ نفع بخش ہیں یا خسارہ زدہ ان کو پرائیویٹائز کیا جائیگا‘ اس ضمن میں تمام وفاقی وزارتوں کو ضروری کاروائی اور نجکاری کمیشن کے ساتھ تعاون کی ہدایت کردی گئی ہے‘ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کی بچت ہوگی اور یہ کہ اسی پیسے سے سروسز کی فراہمی کا معیار بہتر بنانے میں مدد ملے گی‘ حکومت کی جانب سے پہلے ہی چند قومی ملکیتی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا عمل جاری ہے اس ضمن میں متعلقہ دفاتر کے پاس موجود تفصیلات کے مطابق قومی ائرلائنز پی آئی اے کی نجکاری کیلئے پیشگی اہلیت کا عمل رواں ماہ کے آخرتک مکمل کیا جارہاہے‘روز ویلیٹ ہوٹل کی نجکاری کیلئے بھی مشاورت جاری ہے وطن عزیز کو اقتصادی شعبے میں بڑے چیلنجوں کاسامنا ہے یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں میں قرضوں کا انبار مزید بڑھتا ہی چلا جارہاہے صورتحال کی ذمہ داری ہر کوئی دوسرے پر ڈال رہا ہے اس سب کے ساتھ اثاثوں کی حیثیت رکھنے والے ماضی قریب کے منافع بخش ادارے پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں‘ بعض اداروں کیلئے تو تنخواہیں ادا کرنا بھی ممکن نہیں رہا‘اس تشویشناک صورتحال میں حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً گرانٹ جاری ہونا معمول بن چکا ہے‘اقتصادی صورتحال کے عوامل اور اس سیکٹر کو اس صورتحال تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں کی بحث اپنی جگہ‘ماضی قریب کے منافع بخش قومی ادارے اس حال میں کیسے پہنچے کہ ان پر برائے فروخت کے بورڈ لگانا پڑ گئے‘ ان کے اس حالت تک پہنچنے کے عوامل کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے تاکہ مزید اداروں کو اس طرح کی صورتحال سے بچایا جاسکے‘ نجکاری کے عمل میں ملازمین کی ملازمتوں کا تحفظ بھی ناگزیر ہوتا ہے جس کیلئے خصوصی انتظام ضروری ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ درپیش منظرنامے میں ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ اداروں کے اندر بدانتظامی اور بے جا مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے بدعنوانی کا خاتمہ یقینی بنانے کے ساتھ غیر ضروری اخراجات پر قابو پایا جائے‘فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے تمام مراحل میں پیش نظر رکھنا ہوگا کہ درپیش صورتحال کی ذمہ داری عام آدمی پر نہیں‘نہ ہی اس کا اب تک کی صورتحال کے پہنچنے میں کوئی کردار ہے اسلئے اس شہری کو قرض دینے والوں کی شرائط کے بوجھ سے چھٹکارہ دلایا جائے‘ساتھ ہی اس کیلئے بنیادی شہری سہولیات یقینی بنائی جائیں اس سب کیلئے موثر حکمت عملی ناگزیر ہے۔