سیاسی تناؤ اور بے یقینی کے اثرات

عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کیساتھ24ویں قرض پروگرام کیلئے شرائط پر مشتمل فہرست دینے کیساتھ ملک میں سیاسی بے یقینی کی نشاندہی بھی کی ہے‘ آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کی تازہ رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب دی جانے والی سیلز اور انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کا کہا گیاہے اس کے ساتھ سبسڈی بھی ختم کرنا ہوگی‘ رپورٹس کے مطابق اگلے مالی سال کیلئے پیش ہونے والے بجٹ میں کھاد‘ زرعی و کیڑے مار ادویات‘ٹریکٹر اور پرانی درآمدی گاڑیاں مہنگی ہونے کاامکان بھی ہے‘اس سب کیساتھ گندم کی درآمدی ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز بھی ہے‘ بجٹ تجاویز میں کمرشل امپورٹرز پر انکم اور ودہولڈنگ ٹیکس نافذ ہوگا‘ اس سب کے نتیجے میں 30 ارب روپے کا ریونیو متوقع ہے‘وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک میں صارفین کیلئے دی جانے والی بجلی اور گیس کی سبسڈی ختم ہوگی اور یہ کہ پرچون فروشوں کو ہر صورت ٹیکس نیٹ میں لایا جائیگا‘ اس ساری صورتحال کا بوجھ حسب سابق ملک کے غریب اور متوسط شہریوں کو برداشت کرنا پڑے گا‘ ملک میں ایک عرصے سے معیشت کو درپیش مشکلات کے تناظر میں قرضے اٹھانا اور ان قرضوں کیلئے عائد شرائط کا بوجھ عوام پر ڈالنا معمول بن چکا ہے‘ اس گرداب سے نکلنے کا راستہ معیشت کو مستحکم کرنا ہے جس کے لئے سیاسی میدان کا درجہ حرارت اعتدال میں رکھنا بھی ضروری ہے جس کی جانب اب آئی ایم ایف نے بھی اشارہ دیا ہے‘ آئی ایم ایف کا کہنا ہے پیچیدہ سیاسی صورتحال‘ مہنگائی اور سماجی تناؤ پالیسی اصلاحات کے نفاذ کو متاثر کرسکتا ہے‘ اس سب کیساتھ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر بیرونی فنانسنگ میں کسی جگہ تاخیر ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں بینکوں پر قرض کیلئے حکومتی دباؤ مزید بڑھے گا‘ وقت کا تقاضہ ہے کہ سرکاری سطح پر اصلاح احوال کی دیگر کوششوں کے ساتھ قومی قیادت سیاسی درجہ حرارت میں کمی کے لئے اپنا کردار ادا کرے‘ مدنظر رکھنا ہوگا کہ اگر اس وقت معاشی حالات کنٹرول کرنے کیلئے کنکریٹ حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو آگے چل کر صور ت حال مزیدمشکل ہو جائے گی‘ درپیش اقتصادی منظرنامہ متقاضی ہے کہ اس سے نکلنے کے لئے باہمی مشاورت سے اس طرح پائیدار حکمت عملی ترتیب دی جائے کہ جو حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہو اور اس میں عوام کو بھی ریلیف یقینی بنایا جائے۔