فیس بک اور انسٹا گرام پر روزانہ کروڑوں یا اربوں تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں۔
مگر میٹا کمپنی اپنے سرورز میں محفوظ ہونے والی فوٹوز کا کیا کرتی ہے؟
درحقیقت میٹا کی جانب سے انسٹا گرام اور فیس بک پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر کو آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر مبنی ماڈلز کو تربیت دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ انکشاف میٹا کے چیف پراڈکٹ آفیسر کرس کوس کی جانب سے ایک انٹرویو کے دوران کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ فیس بک اور انسٹا گرام پر عوامی سطح پر دستیاب تمام تصاویر کو ٹیکسٹ ٹو امیج جنریٹر ماڈل ایمو کی تربیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نجی مواد کو ڈیٹا ٹریننگ کے لیے استعمال نہیں کرتے، ہم ایسی تصاویر کو بھی استعمال نہیں کرتے جو لوگوں نے صرف اپنے دوستوں سے شیئر کی ہوتی ہیں، ہم صرف پبلک فوٹوز سے اے آئی ماڈلز کو تربیت دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میٹا کا ٹیکسٹ ٹو امیج ماڈل حیران حد تک معیاری تصاویر تیار کر سکتا ہے، کیونکہ انسٹا گرام میں آرٹ، فیشن، کلچر اور دیگر لاتعداد تصاویر موجود ہیں۔
صارفین میٹا اے آئی چیٹ بوٹ یا اس کی ویب سائٹ پر جاکر امیجن لکھ کر تصاویر تیار کروا سکتے ہیں۔
اے آئی ماڈلز کو اپنے افعال کے لیے ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر موجود ڈیٹا اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مگرکاپی رائٹ ڈیٹا استعمال کرنے پر کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، مگر میٹا کو اس حوالے سے دیگر پر سبقت حاصل ہے کیونکہ انسٹا گرام اور فیس بک پر روزانہ لاتعداد تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں۔
میٹا کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ نے اپریل 2024 میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ صارفین کے فیڈ بیک لوپس کو بھی ڈیٹا ٹریننگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیڈ بیک لوپس زیادہ کارآمد ثابت ہوتا ہے۔