امریکی صارفین اور کانٹینٹ کریئیٹرز نے بھی شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر امریکا میں پابندی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کردی۔
امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف امریکا کے ایوان نمائندگان یعنی کانگریس نے 20 اپریل جب کہ سینیٹ نے 24 اپریل کو بل منظور کیا تھا۔
دونوں ایوانوں سے بل کے منظور ہونے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے 25 اپریل کو بل پر دستخط کیے تھے، جس کے بعد وہ قانون بن گیا تھا۔
قانون کے تحت ٹک ٹاک کو آئندہ 9 ماہ یعنی جنوری 2025 تک کسی امریکی شخص یا امریکی کمپنی کو فروخت کیا جانا لازمی ہوگا، دوسری صورت میں اس پر امریکا میں پابندی عائد کردی جائے گی۔
قانون کے تحت امریکی صدر چاہیں تو ٹک ٹاک کو فروخت کرنے کی مدت میں 9 ماہ کے بعد مزید تین ماہ کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
امریکی حکومت کے قانون کے بعد ٹک ٹاک نے گزشتہ ہفتے 7 مئی کو امریکی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
ٹک ٹاک نے امریکا میں ایپلی کیشن کی مجوزہ پابندی کو امریکی صارفین کے حقوق کے خلاف قرار دیا تھا۔
اور اب امریکی صارفین اور کانٹینٹ کریئیٹرز کے گروپ نے بھی امریکی حکومت کے قانون کے خلاف درخواست دائر کردی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکا کی مختلف ریاستوں اور شہروں سے تعلق رکھنے والے کانٹینٹ کریئیٹرز نے دارالحکومت واشنگٹن کے ضلع کولمبیا کی فیڈرل کورٹ میں درخواست دائر کی۔
کانٹینیٹ کریئیٹرز نے اپنی درخواست میں ٹک ٹاک پر مجوزہ پابندی کو صارفین کے حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایپلی کیشن نے انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے سمیت اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کا منفرد ذریعہ دیا۔
درخواست میں امریکی حکومت کے قانون کو منسوخ کرنے اور ٹک ٹاک پر امریکا میں مجوزہ پابندی کو روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ٹک ٹاک سمیت اب کانٹینٹ کریئیٹرز کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر کب تک سماعت ہوگی، تاہم امکان ہے کہ آئندہ ماہ تک عدالتوں میں سماعت ہوگی۔
جوبائیڈن سے قبل گزشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت بھی شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن نے امریکی عدالتوں سے رجوع کیا تھا اور اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرلیا تھا۔