آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر مبنی چیٹ بوٹ جیسے چیٹ جی پی ٹی کبھی بھی انسان جتنے ذہین نہیں ہوسکتے۔
یہ دعویٰ میٹا کے اے آئی شعبے کے سربراہ یان لیکیون نے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ لارج لینگوئج ماڈلز پر مبنی اے آئی چیٹ بوٹس کی اپنی حدود ہیں اور وہ کبھی بھی انسانوں جتنی ذہانت کے حامل نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ زمینی حقائق کو سمجھنا، منطقی دلائل اور منصوبہ بندی جیسی صلاحیتیں انسانی ذہانت کو اے آئی چیٹ بوٹس سے مختلف بناتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ چیٹ بوٹ سوالات کے جوابات درست دیتے ہیں کیونکہ انہیں بہت زیادہ ڈیٹا سے تربیت دی جاتی ہے مگر وہ کبھی بھی زبان یا منطق پر عبور حاصل نہیں کر سکتے۔
ان کے جوابات بنیادی طور پر ڈیٹا کے مخصوص پوائنٹس پر مبنی ہوتے ہیں اور وہ بذات خود علم حاصل نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیٹ بوٹس نئی صورتحال میں سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور یہ صلاحیت صرف انسانی ذہانت میں ہوتی ہے۔
میٹا کے عہدیدار کے مطابق چیٹ بوٹس کے فوائد کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انسانوں کے برعکس ان کی یادداشت نہیں ہوتی، وہ ماضی کے تجربات کو دیکھ کر منصوبے نہیں بنا سکتے جبکہ ان کے تحفظ کا انحصار بھی تربیتی ڈیٹا کے معیار پر ہوتا ہے۔
میٹا کا نیا تحقیقی گروپ ایک سائنسی طریقہ کار ورلڈ ماڈلنگ پر کام کر رہا ہے تاکہ اے آئی ماڈلز کو انسانوں جیسی ذہانت سے لیس کیا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ چیٹ بوٹس ابھی کافی کارآمد ثابت ہو رہے ہیں مگر ابھی بھی انہیں بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقی کام کو مسلسل جاری رکھ کر مستقبل میں ہی باصلاحیت اور با اعتماد اے آئی سسٹم تیار کیے جا سکتے ہیں۔