ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے ساتھ ساتھ اس کےمثبت اور منفی استعمال بھی بڑھتےجارہے ہیں اور اب آن لائن گیم پب جی کو بھی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
خیبرپختوخوا کےضلع سوات میں 28 اگست کو پب جی کو استعمال کرتے ہوئےمینگورہ کی بنڑ پولیس چوکی کو نشانہ بنایاگیا تھا، حملےمیں 3 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے جن میں سے ایک اہلکار بعد میں دم توڑ گیا تھا۔
ڈی پی او سوات ڈاکٹر زاہد اللہ کے مطابق دوران تفتیش گرفتار دہشت گردوں نے اعتراف کیا کہ وہ رابطے کیے لیے دیگر ایپس کے ساتھ ساتھ پب جی گیم کےچیٹ روم کا استعمال کرتے تھے۔
پب جی گیم کھیلنےکے لیے ایک گروپ بنایا جاتا ہے جس میں گیم کھیلنے والے وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتےہیں۔
واٹس ایپ، ٹیلی گرام، ٹوئٹر اور فیس بُک کے ذریعے دہشت گرد ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے آئے ہیں لیکن دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ ہےجس میں پب جی کے ذریعے اِنکرپٹڈ مسیجز بھیجےگئے۔
ماہرین کے مطابق پب جی یا دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے دہشت گردوں کی پیغام رسانی کو روکنا ممکن ہے لیکن اس کے لیے سائبر سکیورٹی کے ماہرین کے ساتھ ساتھ ایپلی کیشنز فراہم کرنے والی کمپینوں سے مدد لینی پڑے گی۔
کالعدم تنظیموں کےارکان کی تربیت کے حوالے سے پہلے بھی ٹی ٹی پی ترجمان کی جانب سے ایک کتابچہ سامنے آچکا ہے، جس میں اینڈرائڈ اور آئی فون کے استعمال کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
ایسی صورتحال میں پب جی اور دیگر ایپلی کیشنز کا دہشت گروں کے ہاتھوں استعمال یقیناً سائبر سکیورٹی ماہرین اور سکیورٹی ایجنسیوں کے لیے ایک چیلنج ہے جس سے بروقت نمٹنے کی ضرورت ہے۔