میزائل گرانے کی بھاری قیمت، اسرائیل کتنا خرچ کر رہا ہے؟

اسرائیل نے حماس، حزب اللہ اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے داغے جانے والے راکٹوں اور میزائلوں سے سے موثر دفاع کے لیے آئرن ڈوم سسٹم لگا رکھا ہے۔ یہ سسٹم راکٹوں اور میزائلوں کو جھپٹ کر فضا ہی میں تباہ کردیتا ہے۔

حزب اللہ اور حماس کی طرف سے کیے جانے والے فضائی حملوں میں اب تک بہت سے راکٹ اور میزائل اسرائیل کے اندرونی علاقوں تک پہنچے ہیں اور وہاں تھوڑی بہت تباہی بھی برپا کی ہے۔

عام آدمی کے ذہن کے پردے پر ابھرنے والے چند بنیادی سوال یہ ہیں کہ آئرن ڈوم کی قیمت کیا ہے، اس کی کامیابی کا تناسب کیا ہے اور کسی ایک راکٹ یا میزائل کو مار گرانے پر کتنا خرچ آتا ہے۔

اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام کئی پرتوں پر مشتمل ہے اور آئرن ڈوم اُس کا کلیدی حصہ ہے۔ فضائی حملوں سے دفاع کا یہ نظام 2008 میں بنایا گیا تھا اور تب سے اب تک اس نے ہزاروں راکٹوں اور میزائلوں کو ناکارہ بناکر اسرائیل کے باشندوں کا عمدگی سے دفاع کیا ہے۔

جب بھی اسرائیل پر کوئی میزائل یا راکٹ داغا جاتا ہے تب آئرن ڈوم اپنے ٹارگٹ پر دو تمیر (Tamir) میزائل داغتا ہے اور ایک میزائل 50 ہزار ڈالر کا ہوتا ہے۔

اسرائیلی فوج آئرن ڈوم کی کارکردگی سے متعلق تصویریں اور دیگر شواہد خوب وائرل کرتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کی دھاک بھی بیٹھی ہے اور قوم میں اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب جنوبی لبنان سے اسرائیل پر راکٹ برسائے جاتے ہٰں تب رات کے وقت آسمان پر چراغاں کا سا سماں ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اسرائیل کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے کیونکہ ایک میزائل یا راکٹ کو مار گرانے میں ناکامی درجنوں اسرائیلیوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔

حزب اللہ نے گیارہ ماہ کے دوران اسرائیل پر 8 ہزار سے زائد راکٹ اور میزائل داغے ہیں۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئرن ڈوم کس حد تک مصروف رہا ہوگا اور اسرائیلی حکومت کو فضائی دفاع کے اس نظام کو موثر بنائے رکھنے پر کتنا خرچ کرنا پڑا ہوگا۔

اسرائیل کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سیکیورٹی اسٹڈیز کے ییہوشوآ کالِسکی نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ آئرن ڈوم کو اس اس طور ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ بیلسٹک میزائل کو ہدف سے سیکڑوں میل دور ہی گرانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ زمین پر نقصان کم سے کم ہو۔ فضائی میں بہت بلندی پر تباہ کیے جانے کی صورت میں کسی بھی راکٹ یا میزائل کے ملبے سے بہت زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔

ڈیوڈ سلنگ نامی لیئر کسی بھی میزائل کو 100 سے 200 کلومیٹر کی دوری سے بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ طیاروں، ڈرونز اور کروز میزائلوں کو بھی جھپٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سب سے نچلی لیئر کو آئرن ڈوم کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہی استعمال میں رہتی ہے اور اِسی کی کارکردگی کی بدولت زمین پر زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ آئرن ڈوم کو کپاٹ برزل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ راڈار ٹریکنگ اسٹیشن، کنٹرول سینٹر اور میزائل بیٹری پر مشتمل ہوتا ہے۔

غیر آباد علاقوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔ اگر کوئی میزائل یا راکٹ غیر آباد علاقے کی طرف داغا گیا ہو تو آئرن ڈوم اس کا تعاقب نہیں کرتا۔ آئرن ڈوم 2006 میں حزب اللہ کے حملوں میں بہت زیادہ ہلاکتوں کے بعد بنایا گیا۔ 2009 میں اس کی کامیاب آزمائش ہوئی اور 2011 میں اِسے باضابطہ طور پر نصب کردیا گیا۔ تب سے اب تک یہ نظام اسرائیل کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

آئرن ڈوم کی کامیابی کا تناسب 90 فیصد رہا ہے یعنی اسرائیل پر داغے جانے والے 90 فیصد راکٹ اور میزائل یہ سسٹم جھپٹنے میں کامیاب رہا ہے۔ اسرائیل کے موثر دفاع کے لیے آئرن ڈوم کی دس بیٹریاں کام کر رہی ہیں۔

اسرائیل نے امریکا بھی یہ سسٹم فراہم کیا ہے اور یوکرین بھی یہ سسٹم حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ روس کے داغے ہوئے میزائلوں سے اپنا دفاع موثر بنائے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دشمن کے داغے ہوئے میزائل جھپٹنے کے معاملے میں کبھی کبھی سب کچھ فضا میں اس قدر نزدیک ہوتا ہے کہ زمین پر لوگ دھماکوں کی آواز سُنتے ہیں اور بہت سے مواقع ہر اُنہیں دھماکوں کی لہر بھی محسوس ہوتی ہے۔