سوشل لائف

منصفی کرنا بہت کٹھن کام ہے جج کو اپنی سوشل لائف قربان کرنا پڑتی ہے ہماری عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں ایسے جج بھی گزرے ہیں جو کسی کے ظہرانے عصرانے اور عشائیے میں جانے سے گریز کرتے تھے بھلے ان کو ان میں شرکت کی دعوت ایوان صدر وزیر اعظم ہاؤس یا گورنر ہاؤ س سے کیوں نہ آئی  ہوتی سر عبدالرشید پاکستان کے چیف جسٹس تھے یہ ان دنوں کی بات ہے جب سپریم کورٹ لا ہور میں ہوا کرتی تھی وزیراعظم لیاقت علی خان لاہور کے دورے پر تھے ان کی طرف سے گورنرہاؤس میں ایک عشائیے میں شرکت کے واسطے چیف جسٹس کو بھی شرکت کی دعوت آئی جس پر انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ چونکہ ان کی عدالت میں کئی ایسے مقدمات زیر سماعت ہیں کہ جن میں وفاقی حکومت فریق ہے لہٰذا وہ اس دعوت میں شرکت کرنے سے قاصر ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احتیاط کا یہ عالم تھا اسی طرح جسٹس رستم کیانی‘ جسٹس کار نیلس‘جسٹس صمدانی‘ جسٹس دراب پٹیل‘جسٹس بھگوان داس‘جسٹس اللہ بخش جیسے اعلیٰ و ارفع کریکٹر کے مالک  جج اعلیٰ عدالتوں میں فائز ر ہے اور کئی اسی پائے کے جج ہیں جن کے نام اس وقت ذہن سے اترے ہوئے ہیں۔ سموگ نے ملک کے کئی علاقوں کو جکڑ کر رکھاہوا ہے‘ خدا کرے بارشوں کا ممکنہ سلسلہ فضائی آ لودگی میں کمی کا سبب بنے  اور لوگوں کو کھانسی زکام وغیرہ سے نجات ملے۔ کیا وطن عزیز پہلے ہی کئی مصیبتوں کا شکار نہ تھا جو موسیمیاتی تبدیلی نے اس کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا۔