حکومت نے ملک کے ڈیجیٹل قوانین میں تبدیلی کی جاری کوششوں کے درمیان سائبر اور ڈیجیٹل جرائم اور ان سے متعلق تحقیقات کے لیے نیشنل فرانزک اینڈ سائبر کرائم ایجنسی (این ایف سی اے) کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔
واضح رہے ک ہیہ پیش رفت ملک کے سائبر کرائم قوانین میں تبدیلیوں کے لیے کی جانے والی کوششوں کے درمیان سامنے آئی ہے، ایک روز قبل حکومت کی جانب سے ملک کے سائبر کرائم قوانین ’پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز‘ (پیکا) میں کی جانے والی نئی مجوزہ تبدیلیوں میں واضح کیا گیا تھا کہ خلاف ورزی کے نتیجے میں 7 سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
حکومت پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) میں جامع تبدیلیاں کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، ان تبدیلیوں کے تحت ایک نئی اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جسے آن لائن مواد اور سوشل میڈیا تک رسائی کو بلاک کرنے کے اختیارات حاصل ہوں گے، اور وہ افراد جو ’جعلی خبریں‘ پھیلائیں گے ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔
وزیر مملکت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام شزا فاطمہ نے غلط معلومات کے حوالے سے خدشات کو ظاہر کرتے ہوئے پیکا ایکٹ میں ترامیم کے زیر غور ہونے کی تصدیق کی تھی۔
’نیشنل فرانزک اور سائبر کرائم ایجنسی ایکٹ 2024‘ کے مسودے کی کاپی کے مطابق قانون پورے ملک پر لاگو ہوگا اور مجوزہ ایجنسی اسلام آباد میں وزارت داخلہ کے ماتحت ہوگی، مسودے کے مطابق ایجنسی ملک کے دیگر مقامات پر اپنے دفاتر قائم کر سکتی ہے۔
مسودے میں وضاحت کی گئی ہے کہ این ایف سی اے ( نیشنل فرانزک اینڈ سائبر کرائم ایجنسی) موجودہ قومی فرانزک سائنس اتھارٹی کو اپ گریڈ کرکے ایک منصوبے سے باقاعدہ محکمے میں تبدیل کرنے کے طور پر سامنے آئی ہے، جو ملک بھر میں روایتی، ڈیجیٹل اور سائبر فرانزک کے لیے مرکزی رابطہ کار ایجنسی کے طور پر کام کرے گی۔
مسودے میں سائبر کرائم کی تعریف اس طرح کی گئ ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ذریعے کی جانے والی مجرمانہ سرگرمیاں، جن میں جرائم کے ارتکاب کے لیے کمپیوٹرز، نیٹ ورکس اور الیکٹرانک آلات کا استعمال کرنا ہے۔
مسودے میں مزید کہا گیا کہ’سائبر کرائم کی اہم اقسام میں سائبر فراڈ، ہیکنگ، سائبر جاسوسی، دہشت گردی، آن لائن ہراسانی، سائبر بھتہ خوری اور سائبر جنگ وغیرہ شامل ہیں۔’
مسودے میں ڈیپ فیک کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے ڈیپ لرننگ الگورتھمز کے ذریعے تخلیق کردہ آڈیو، ویڈیو، تصویر یا کسی اور قسم کا جعلی ڈیجیٹل مواد استعمال کیا جائے، جس کا مقصد کسی شخص کی نقل اتارنے یا اسے بدنام کرنا ہو۔
اس میں مزید کہا گیا کہ این ایف سی اے ’وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو پہلی سطح پر روایتی، ڈیجیٹل اور سائبر فرانزک معاونت فراہم کرنے والی سپریم ایجنسی ہوگی اور ملک بھر کی تمام فرانزک ایجنسیوں/لیبز بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے دوبارہ جانچ پڑتال کرنے والی ایجنسی کے طور پر کام کرے گی۔‘
این ایف سی اے ایک قانونی شعبہ بھی قائم کرے گی تاکہ ’روایتی، ڈیجیٹل اور سائبر فرانزک پر اثر انداز ہونے والے قانونی نظام کی کمزوریوں کا پتا چلایا جا سکے اور قوانین میں ترامیم کی تجویز یا نئے قوانین تیار کیے جا سکیں۔‘
ایجنسی کا ایک اور اہم کام جرم کے مقامات سے روایتی، ڈیجیٹل اور سائبر فرانزک مواد اکٹھا کرنا ہوگا تاکہ اس کی جانچ پڑتال کی جا سکے اور عدالتوں یا دیگر حکام کو رائے فراہم کی جا سکے۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ ایجنسی کی سربراہی ایک ڈائریکٹر جنرل کریں گے جنہوں نے سائبر سیکیورٹی، مصنوعی ذہانت، انفارمیشن سیکیورٹی، فرانزک اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی ہوگی۔
مسودے میں تجویز کردہ ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس میں وزیر داخلہ بطور چیئرمین، سیکرٹری داخلہ نائب چیئرمین، این ایف سی اے کے ڈائریکٹر جنرل یا ڈائریکٹر سیکرہٹری کے طور پر شامل ہوں گے۔
اس کے علاوہ دیگر ارکان میں مجوزہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے چیئرمین، نیشنل سائبر کرائم اینڈ انویسٹیگیشن اتھارٹی (جو اب تحلیل ہو چکی ہے)، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل، اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے پولیس سربراہان، سیکریٹری برائے قانون و انصاف، اسٹیبلشمنٹ اور فنانس ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری شامل ہوں گے۔
مسودے میں کہا گیا کہ تجویز کردہ قانون کے تحت کیے گئے کسی بھی اقدام کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا اور نہ ہی حکومت، صوبائی حکومت یا مقامی اتھارٹی کے خلاف کوئی سول یا فوجداری مقدمہ دائر کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ کارروائی جو نیک نیتی سے کی گئی ہو یا جسے قانون کے تحت کیا گیا ہو۔