حکومت نے نجکاری کے پہلے مرحلے کے لیے منتخب کی گئی بجلی کی تقسیم کار 3 کمپنیوں (ڈسکوز) اور دو پاور جنریشن کمپنیوں (جینکوز) کے لیے ابھی تک کوئی مالیاتی مشیر مقرر نہیں کیا ہے۔
پاور ڈویژن نے یہ انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے رو برو کیا، قائمہ کمیٹی نے وعدے کے باوجود وزیر توانائی اویس لغاری اور سیکریٹری پاورڈویژن ڈاکٹر فخر عالم کے اجلاس میں حاضر نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور خیبرپختونخوا میں سولر نیٹ میٹرنگ کے لیے درخواست دینے والے صنعتکاروں کو ہراساں کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر محسن عزیز کی زیرصدارت ہوا، اجلاس میں انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ مذاکرات اور نجکاری کے ایجنڈے میں شامل ڈسکوز کے اثاثوں (منقولہ و غیر منقولہ)، واجبات اور ملازمین کے تصفیے سے متعلق امور کو موخر کردیا گیا۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اجلاس وزیر توانائی اور سیکریٹری توانائی کی مشاورت سے طے کیا گیا تھا جو 20 دن کا وقفہ چاہتے تھے لیکن 36 دن بعد بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، ایڈیشنل سیکرٹری توانائی ارشد مجید نے بتایا کہ ان دونوں کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنی تھی، محسن عزیز نے کہا کہ صبح وفاقی وزیر اور سیکریٹری، دونوں سے بات کی تھی اور انہوں نے اجلاس میں آنے کا وعدہ کیا تھا۔
وزارت توانائی کے ایک عہدیدار نے اجلاس کو بتایا کہ 3 ڈسکوز کے لیے مالیاتی مشیروں (فنانشل ایڈوائزرز) کی تقرری نجکاری کمیشن کے زیر غور ہے اور وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کو مالیاتی مشیروں کی تعیناتی کا عمل مکمل کرنے کے لیے 9 شرائط کی فہرست دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے کے ماہرین اور عالمی بینک کا بھی ماننا ہے کہ یہ اقدامات مالیاتی مشیروں کی تقرری سے پہلے کیے جانے چاہئیں، جو اس کے بعد ہر طرح کے اثاثوں، ریئل اسٹیٹ، ملازمین اور ان کی نجکاری کے بعد پنشن فوائد وغیرہ کے بارے میں جائزہ لیں گے۔
عہدیدار نے کہا کہ پاور ڈویژن کو یہ 9 ٹاسک 31 جنوری 2025 تک مکمل کرنے ہیں لیکن انہوں نے ان شرائط کی وضاحت نہیں کی، اجلاس کو بتایا گیا کہ نجکاری کے پہلے مرحلے کے لیے گوجرانوالہ، لاہور اور اسلام آباد سے 3 ڈسکوز کا انتخاب کیا گیا ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالیاتی مشیروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مناسب جانچ پڑتال کریں، جس کی بنیاد پر ٹرانزیکشن اسٹرکچر کا تعین وفاقی کابینہ کی منظوری کے لیے کیا جائے، اس کے علاوہ، مالیاتی مشیر ریزرو یا بیس پرائس، اثاثوں (قابل منتقل / غیر منقولہ) کو نمٹانے کے لیے نجکاری کی شرائط و ضوابط، ذمہ داریوں، ملازمین اور نجکاری کے لیے مجوزہ اثاثوں کی قیمت کے تعین کے لیے معیار تجویز کریں گے۔
جینکوز کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری (سی سی او پی) نے رواں سال مئی میں فیصلہ کیا تھا کہ تمام جینکوز کے صرف فعال اور موثر پلانٹس کو ہی نجکاری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ نندی پور پاور پلانٹ ( جو جینکو تھری میں شامل ہے) اور گدو پاور پلانٹ ( جو جینکو ٹو میں شامل ہے) 2019 سے نجکاری پروگرام کا حصہ ہیں، 2020 میں نندی پور پاور پلانٹ کے لیے ایک کنسورشیم کو مالیاتی مشیر مقرر کیا گیا تھا، جبکہ گدو پاور پلانٹ کے لیے مالیاتی مشیر کی خدمات حاصل کرنے کی کوششیں 3 بار شروع کی گئیں لیکن ابھی تک کسی مالیاتی مشیر کا تقرر نہیں کیا جاسکا، مالیاتی مشیروں نے نندی پاور پلانٹ اور گدو پاور پلانٹس، دونوں کے لیے 9 اہم مسائل کی نشاندہی کی۔
نجکاری کمیشن نے ایک بار پھر نندی پور پلانٹ کے لیے مشیر کی خدمات لینے کے لیے تجاویز دینے کی درخواست کی ہے، اس کی تکمیل جنوری 2025 کے وسط تک متوقع ہے، گدو پاور پلانٹ کے لیے یہی عمل اس وقت شروع کیا جائے گا، جب اس کی اسٹیم ٹربائن (ایس ٹی 16) کی بحالی مکمل کی جائے گی، کیوں کہ اس وقت اسٹیم ٹربائن غیر فعال ہے۔
’خیبر پختونخوا کے صنعتکاروں کے مسائل‘
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کی جانب سے سولر سسٹم کی تنصیب پر ہراساں کرنے کے خلاف خیبرپختونخوا کے صنعتکاروں کی شکایات کا جائزہ لیا گیا، سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر نے بتایا کہ پیسکو حکام نے سولرائزیشن کے عمل کو پٹری سے اتارنے کے لیے رکاوٹیں پیدا کی ہیں، پیسکو سے ضروری منظوری حاصل کرنے میں 8 سے 9 ماہ کا عرصہ لگا ہے۔
اسی طرح کی شکایات تقریباً 5 سے 6 دیگر تاجروں نے بھی کیں، جنہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کا مطالبہ کیا کہ پیسکو امتیازی سلوک نہ کرے، یکطرفہ طور پر کام کرنے کے بجائے مقامی صارفین کو ریلیف فراہم کرے، ایک متاثرہ صنعت کار نے کمیٹی کو بتایا کہ پیسکو نے توسیع کی درخواست دائر کرنے کے باوجود کنکشن کاٹ دیا ہے جو 3 ماہ سے زائد عرصے سے زیر التوا ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ بلوں اور ٹیکسوں کی ادائیگی کرنے والے صنعتکاروں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے، سینیٹر ہدایت اللہ خان نے کہا کہ صنعتکاروں کا بوجھ کم کرنے کے لیے پیسکو قوانین میں ترمیم کی جانی چاہیے۔
کمیٹی نے یکطرفہ طور پر پاور ڈویژن کو ہدایت کی کہ وہ صنعتکاروں کی شکایات کا ازالہ کرے کیونکہ اس سے خیبرپختونخوا کی دم توڑتی ہوئی صنعت کی بحالی میں مدد ملے گی۔
سینیٹر سید مسرور احسن کی جانب سے کراچی میں اوور بلنگ اور لوڈ شیڈنگ کا معاملہ اٹھانے پر کے الیکٹرک حکام نے دعویٰ کیا کہ صنعتی فیڈرز پر لوڈشیڈنگ صفر ہے، تاہم کے الیکٹرک کی جانب سے مقرر کردہ بنیادی ٹرانسمیشن کی حد اور ڈسٹری بیوشن لاسز سے تجاوز کرنے والے فیڈرز پر 30 فیصد لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔