وسیع زرعی بنیاد اور تیزی سے شہری آبادی کے ساتھ، پاکستان سالانہ 650ملین میٹرک ٹن (ایم ٹی) زرعی فضلہ اور 23 ملین میٹرک ٹن شہری علاقوں میں (میونسپل) ٹھوس فضلہ (کوڑا کرکٹ) پیدا کرتا ہے۔ یہ فضلہ 15,500سے زیادہ کرکٹ اسٹیڈیموں کے مساوی ہے، جو ہر سال تین میٹر گہرائی میں جمع ہوتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ ذخیرہ 2050ء تک آبادی دوگنا ہونے کے ساتھ بڑھے گا جیسا کہ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دیکھا گیا ہے۔ روایتی طور پر، فضلے کو سماجی اور ماحولیاتی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاہم پائیدار گردشی معیشت میں یہی فضلہ آمدنی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور اِس کے مؤثر استعمال سے مالی طور پر منافع بخش اور آب و ہوا دوست دونوں اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔پائیدار ترقی اسی میں ہے کہ موجود وسائل کا بہتر بلکہ بہترین استعمال کیا جائے۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ وسائل کی کھوج‘ دستیاب وسائل سے بہتر استفادہ، ری سائیکلنگ یعنی ان کے دوبارہ استعمال پر زور دیا جائے۔ اس ’سرکلر اکانومی‘ نقطہ نظر کو نجی شعبے کے تعاون میں اپنانے سے عملی ری ڈیزائن کو اپنانے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں فضلے کے استعمال کے مؤثر حل نکلیں گے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سہولت کار کا کردار ادا کرے۔ یہ نقطہ نظر زرعی اور شہری باورچی خانوں کے فضلے کو قیمتی توانائی میں تبدیل کر دے گا، ماحولیاتی پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو کم کرے گا، زراعت سے جڑی ملازمتیں پیدا کرے گا، توانائی کے تحفظ کو بڑھائے گا اور اقوام متحدہ کے مقرر کردہ آٹھ پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوگا۔سال 2025ء تک شہروں کی آبادی میں پچاس فیصد سے زیادہ اضافہ متوقع ہے اُور ظاہر ہے کہ جہاں آبادی بڑھے گی تو اُس کے ساتھ سالڈ ویسٹ (ایم ایس ڈبلیو) کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔ عمومی طرز عمل یہ ہے کہ اس فضلے کا زیادہ تر حصہ لینڈ فلز میں دبا دیا جائے گا جس سے میتھین اور دیگر ماحول دشمن گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جیز) کا اخراج ہوگا اور ایس ڈی جی کی خلاف ورزی ہوگی جس کے تحت پاکستان نے عالمی سطح پر معاہدہ کر رکھا ہے کہ ماحول سے ہم آہنگ اقدامات کرے گا بالخصوص ایسے اقدامات جن سے پائیدار کھیتی باڑی کو فروغ ملے۔ پاکستان جیسی گردشی معیشتوں میں آب و ہوا کا فروغ عالمی و قومی ذمہ داری ہے۔ توجہ طلب ہے کہ جب پاکستان کی آبادی چالیس کروڑ سے تجاوز کر جائے گی تو غذائی تحفظ کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کی وجہ سے زرعی فضلے میں بھی اضافہ ہوگا۔ بائیو فیول کی پیداوار بڑھے گی جو ماحولیاتی نظام کو ترقی دینے کا پائیدار راستہ ہے۔ یہ پائیدار توانائی ایس ڈی جی کے ساتویں ہدف کو حاصل کرنا یقینی بنائے گا کیونکہ زرعی اور میونسپل فضلے سے پیدا ہونے والے بائیو فیول، فوسل ایندھن کے لئے صاف توانائی کے متبادل کے طور پر کام کرتے ہیں، جس سے غیر قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر انحصار کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ویسٹ ٹو بائیو فیول (ڈبلیو ٹی بی) منصوبے آب و ہوا سے منسلک سرمایہ کاری کو راغب کرسکتے ہیں اور یہ ایندھن کے متبادل بھی فراہم کرتے ہیں جس سے قومی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی شرح کم ہوتی ہے۔ گاڑیوں کی نقل و حرکت کے لئے درآمد شدہ ایندھن پر انحصار کم کرکے سالانہ 1.5 ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ کی بچت ممکن ہے، اِس سے قومی وسائل پر مالی دباؤ بھی کم ہو گا اور ایس ڈی جی 8 کا حصول ممکن ہو گا جو پائیدار اور جامع معاشی ترقی کو فروغ دیتا ہے اور ایس ڈی جی 9 بھی حاصل ہوگا کیونکہ یہ شعبہ جدید ٹیکنالوجیوں کو استعمال کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مزید برآں اضافی پائیدار ایوی ایشن فیول (ایس اے ایف) برآمد کرنے سے سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی آمدنی ہوسکتی ہے۔سال 2022ء میں 116 ارب ڈالر مالیت کی عالمی بائیو فیول لین دین ہوئی۔ توقع ہے کہ سال 2030ء تک یہ تجارت 200 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ ایتھنول بنیادی طور پر زرعی بائی پروڈکٹس سے حاصل کیا جاتا ہے، جو بائیو فیول کی پیداوار کا 72فیصد ہے جبکہ باقی بائیو ڈیزل کا حصہ ہوتا ہے۔ ایس اے ایف، جو فی الحال بائیو ڈیزل کی پیداوار کا صرف ایک فیصد ہے سال 2030ء تک بائیو فیول مارکیٹ کے 13 فیصد یا 7.8 ارب ڈالر سے زیادہ تک بڑھنے کے لئے تیار ہے۔ ری فیول ای یو اور یو ایس ایس اے ایف گرینڈ چیلنج جیسے اقدامات کا ہدف 2030ء تک جیٹ ایندھن میں ایس اے ایف کو نمایاں طور پر ملایا جائے گا جس کے لئے عالمی سطح پر سالانہ 17 ملین میٹرک ٹن سے زیادہ ایس اے ایف کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پیداوار کی حد 7.8 ملین میٹرک ٹن سالانہ تک ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عدنان پاشا صدیقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2040ء تک طلب رسد سے 25 فیصد یا اس سے زیادہ بڑھ سکتی ہے لہٰذا پیداواری صلاحیت، معاون حکومتی پالیسیوں اور تکنیکی جدت میں خاطر خواہ پیش رفت کے بغیر، مستقبل قریب میں عالمی ایس اے ایف کی طلب اور رسد کا فرق ختم ہونے کا امکان نہیں۔ پاکستان کو ان متوقع عالمی رسد کے خلا کو دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ منصوبے آب و ہوا سے منسلک ترقیاتی فنانسنگ حاصل کرسکتے ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں ان پر عمل درآمد کیا جائے گا۔تحصیل اور ضلعی سطح پر نجی ملکیت والے بائیو فیول کی پیداواری تنصیبات کرنے سے فضلہ سرمایہ کاری ممکن ہے جو ایک منافع بخش ذریعہ ہے۔ زرعی باقیات کو جلانے کی بجائے اگر ان سے توانائی پیدا کی جائے تو اس سے ایندھن کا پائیدار متبادل حاصل ہو گا۔