سال 2025: غیرمستحکم دنیا

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا زیادہ غیر مستحکم اور غیر متوقع دکھائی دے رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی تناؤ یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جنگیں اور عالمی خطرے کے ماحول میں غیر یقینی کی اِس صورتحال نے آنے والے سال کے لئے بین الاقوامی نقطہ نظر کو پریشان کن بنا دیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے عالمی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ دریں اثنا، زیادہ کثیر قطبی دنیا کی طرف منتقلی تیزی سے بڑھ رہی ہے، مغربی غلبہ ختم ہو رہا ہے اور کثیر الجہتی ادارے زیادہ دبا کا شکار ہو رہے ہیں۔ طاقت کے عالمی توازن میں تبدیلیوں کے منظر نامے میں جغرافیائی سیاست کی تشکیل نو میں درمیانی طاقتیں بڑھتا ہوا کردار ادا کریں گی۔سال دوہزارپچیس کے لئے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت عالمی معاملات میں مزید غیر مستحکم دور کا آغاز کرے گی۔ ان کے کچھ پالیسی منصوبے پہلے سے ہی بے ترتیب دنیا کے لئے خلل ڈال رہے ہیں۔ سب سے بڑی جیو پولیٹیکل پیش رفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ اپنے اتحادیوں، مخالفین اور حریفوں کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان مستقبل کے تعلقات آنے والے سال میں سب سے اہم اسٹریٹجک متحرک رہیں گے۔ ٹرمپ کی غیر متوقع اور تجارتی شخصیت کو دیکھتے ہوئے چین اور امریکہ کے تعلقات میں یا تو تناؤ میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا یا ٹرمپ کے لین دین کے نقطہ نظر کی وجہ سے کسی قسم کا بڑا سودا ہوگا۔ اس کے باوجود چین کے ساتھ امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس رکھنے والے دیگر ممالک پر زیادہ محصولات عائد کرنے کی دہمکی نے بہت سے ماہرین کو خبردار کیا ہے کہ دوہزارپچیس کے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک زیادہ شدید عالمی تجارتی جنگ ہوگی۔ لندن میں قائم رسک کنسلٹنسی فرم کنٹرول رسکس نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والا سال قومی سلامتی کو بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے رہنما اصول کے طور پر قائم کرے گا۔ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ تجارتی تحفظ پسندی میں واشنگٹن کس حد تک جائے گا، یہ چین اور امریکہ کے تعلقات کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کے لئے بھی اہم ہوگا تاہم بڑے تجارتی شراکت دار خاص طور پر چین پہلے ہی اس حوالے سے کام کر رہے ہیں کہ ٹرمپ اپنی حکمت عملی کو کس طرح ظاہر کرتے ہیں۔ دی اکانومسٹ نے اپنی سالانہ اشاعت بعنوان دی ورلڈ آڈ ان 2025 میں کہا ہے کہ چینی کمپنیاں پہلے ہی تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ گلوبل ساتھ میں نئی مارکیٹوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے  پھیل رہی ہیں۔ بلیک راک کے جائزے کے مطابق امریکہ اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کی دور کو خطرے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔سال دوہزارپچیس میں یہ بھی طے کیا جائے گا کہ یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جنگیں کس طرح چلیں گی۔ یوکرین کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات سے لگتا ہے کہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی یورپی حکومتوں کو پریشان کر رہی ہیں۔ اکثر یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ ایک دن میں جنگ ختم کر سکتے ہیں، توقع کی جاتی ہے کہ ٹرمپ یوکرین کو روس کے ساتھ مذاکرات کی طرف دھکیلیں گے اگرچہ انہوں نے تنازع کے خاتمے کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا ہے لیکن ٹرمپ مذاکرات کے نتیجے کے مخالف نہیں ہوسکتے ہیں جس سے ماسکو کو فائدہ ہو، جس کے ذریعہ یوکرین کو علاقے سے دستبردار ہونا پڑے۔ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں اگرچہ انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات سے گریز کیا لیکن یہ تقریباً یقینی طور پر اسرائیل کی شرائط پر ہوگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کو شام کے معاملات سے الگ رہنا چاہئے لیکن یہ دیکھنا مشکل ہے کہ وہ وہاں حکومت کی تبدیلی کے پیچیدہ علاقائی اثرات کو دیکھتے ہوئے کیا امریکہ ایسا کرے گا؟نئے سال میں دنیا بھر میں جمہوریت کو چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں جن رجحانات کی توقع کی جا رہی ہے وہ حوصلہ افزاء نہیں بہت سے ممالک میں سیاسی پولرائزیشن جاری ہے جس کی وجہ سے سیاست تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور غیر مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ درمیانی راستے کا کٹا یا یہاں تک کہ غائب ہونا اور سیاسی مرکز کا کمزور ہونا ایک عالمی رجحان بن گیا ہے۔ اس کا تعلق دائیں بازو کی پاپولزم کے عروج سے ہے، جو یورپ کے زیادہ تر حصوں میں پھیل رہا ہے اور دوسری جگہوں پر بھی واضح ہے۔ دنیا کے تقریبا تمام خطوں میں جمہوریت کا زوال ہوا ہے۔ بہت سی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے ریکارڈ کئے گئے جمہوری زوال کا یہ عالمی رجحان جاری رہنے کی توقع ہے، جس میں آمریت میں اضافہ اور جمہوری حقوق اور آزادیوں میں پسپائی شامل ہے۔ عالمی تھنک ٹینک مستقبل کے بارے میں کافی مایوس ہیں۔ عام طور پر سیاسی نظام عوام کی توقعات کے مطابق کام نہیں کر رہے۔ بین الاقوامی تجارتی جریدے گلوبل ٹریڈ ریویو کی جانب سے نشاندہی کیے جانے والے سال میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک گرے زون جارحیت ہے، جو ایک ایسا خطرہ ہے جس کی وضاحت کرنا مشکل ہے لیکن اسے تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اس میں غلط معلومات پھیلانے کی مہم، سائبر حملے اور پراکسی جنگیں شامل ہیں، جن کے بارے میں گلوبل ٹریڈ ریویو کا کہنا ہے کہ روایتی تنازعات بڑھیں گے اور امن کی کاروائیوں کے درمیان لکیروں کو دھندلا کر دیا جائے گا۔ جنگ کی یہ نئی شکلیں اب ہمہ گیر ہیں، جو ریاستوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ آنے والا سال جغرافیائی سیاسی تنا اور معاشی چیلنجوں کو دیکھے گا جو قوموں کی لچک کے ساتھ بین الاقوامی برادری کو درپیش مشترکہ مسائل پر اجتماعی ردعمل تیار کرنے کی صلاحیت کا امتحان ثابت ہوگا۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)