خوش آمدید 2025ء

اُمید پر دنیا قائم ہے۔ آنے والا سال ماضی کے چیلنجوں پر غور کرنے اور ان سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کا موقع بھی ہے اگرچہ مستقبل غیر یقینی ہے لیکن مختلف اندرونی اور بیرونی عوامل کی بنیاد پر تشکیل پانے والے منظرنامے ہماری کامیابیوں یا کسی بھی مقررہ وقت میں ان کی کمی کا بیان ہیں مثال کے طور پر گزشتہ برس پاکستان کی معاشی سمت کا انحصار عوامل کے پیچیدہ باہمی تعامل پر رہا، جن میں آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات، بات چیت‘ موسمیاتی تبدیلیاں، توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، سیاسی استحکام اور انسانی ترقی میں سرمایہ کاری شامل ہیں۔  ان عناصر و عوامل سے مؤثر فائدہ اٹھانے کی صلاحیت اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا وہ بحالی کی راہ پر گامزن ہیں جمود کا شکار ہیں یا مزید تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہیں۔آئی ایم ایف 2025ء میں بھی پاکستان کے معاشی منظرنامے میں کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے وعدوں سے انحراف کرتا ہے تو میکرو اکنامک استحکام کی طرف جاری منتقلی متاثر ہوگی۔ فروری 2025ء میں موجودہ پروگرام کا پہلا جائزہ ممکنہ طور پر ٹیکس محصولات کی کمی دور کرنے، زرعی آمدنی پر ٹیکس کے نفاذ، خسارے میں چلنے والے سرکاری شعبے کے اداروں کی نجکاری اور بجلی کے شعبے میں اصلاحات وغیرہ سمیت نامکمل شرائط پر توجہ مرکوز کرے گا۔اہم اہداف کو حاصل کرنے میں پاکستان کی کامیابی یا اس کے لئے اضافی وقت حاصل کرنا اس بات کا تعین کرنے میں اہم ہوگی کہ آیا آئی ایم ایف فنڈنگ کی اگلی قسط جاری کرتا ہے یا اسے اس وقت تک مؤخر کرتا ہے جب تک ٹھوس اقدامات، خاص طور پر فنانس بل 2025ء میں بیان کردہ اقدامات پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ فنڈنگ میں کسی بھی طرح کی تاخیر میکرو اکنامک چیلنجز کو بڑھا سکتی ہے، جس سے ملک کو بیرونی جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے آنے والی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات (ممکنہ طور پر ٹرمپ کی قیادت میں) بھی آئی ایم ایف بورڈ کے فیصلے کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کشیدہ تعلقات پاکستان کی مذاکرات کی گنجائش کم کر سکتے ہیں اور آئی ایم ایف کے فیصلوں میں لچک کو محدود کر سکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے معاشی استحکام کے لئے خطرہ ہے۔ 2022ء کا سیلاب ملک کے زرعی شعبے، بنیادی ڈھانچے اور مالی صحت پر شدید موسم کے تباہ کن اثرات کی یاد دلاتا ہے۔ سال 2025ء میں مون سون کا موسم اور سیلاب یا خشک سالی جیسے انتہائی واقعات کا رونما ہونا یا نہ ہونا ملک کی معاشی کارکردگی کا تعین کرے گا۔ زراعت، جو آبادی کے ایک بڑے حصے کو روزگار فراہم کرتی ہے اور جی ڈی پی میں کافی حصہ ڈالتی ہے، خاص طور پر آب و ہوا میں خلل کے خطرے سے دوچار ہے۔ آب و ہوا کی لچک، آفات کی تیاری اور آب و ہوا سے متعلق سمارٹ زرعی طریقوں کو نافذ کرنے میں سرمایہ کاری معاشی اور انسانی نقصانات کم کر سکتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کے بغیر، موسمیاتی تبدیلی دیہی علاقوں میں موجود غربت کو بڑھا سکتے ہیں، خوراک کی درآمد کے بلوں میں اضافہ کر سکتے ہیں اور سرکاری مالیات پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ آب و ہوا کی عدم فعالیت کے نتائج خوفناک ہوسکتے ہیں، جس سے یہ معاشی استحکام کے لئے توجہ کا اہم شعبہ بن سکتا ہے۔ بنیادی طور پر درآمدی ایندھن پر انحصار کرنے والے ملک کی حیثیت سے، پاکستان کی معیشت توانائی کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ توانائی کی زیادہ لاگت تجارتی خسارے کو بڑھا سکتی ہے، افراط زر میں اضافہ کر سکتی ہے اور ترقیاتی اخراجات کے لئے مالی گنجائش کو محدود کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس، قیمتوں میں کمی عارضی راحت کا باعث ہو گی۔ اس کا جواب قابل تجدید توانائی اور کارکردگی میں بہتری کی طرف اسٹریٹجک تبدیلی میں مضمر ہے تاہم، قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونا اگرچہ صارفین کے لئے اچھا ہے لیکن یہ  حکومت کے لئے سر درد پیدا کرے گا کیونکہ اس سے صلاحیت کی ادائیگی کے چارجز کا بوجھ بڑھ جائے گا۔سال 2025ء میں پاکستان کی اقتصادی کارکردگی کا اہم عنصر مستقبل کا تجارتی نظام ہے۔  (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

یورپی یونین کا کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم اور دیگر ممالک کی جانب سے تجویز کردہ اسی طرح کے کاربن ٹیکس اقدامات پاکستان کی برآمدی مسابقت کے لئے اہم چیلنج ہیں۔ گرین ٹیکنالوجی میں چین کی قیادت پاکستان کو 2025ء میں اپنی معیشت جدید بنانے اور توانائی اور آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کا قابل قدر موقع فراہم کرتی ہے۔ سستے سولر پینلز، بیٹریوں اور الیکٹرک گاڑیوں میں عالمی سطح پر سب سے آگے ہونے کے ناطے، چین پاکستان کو صاف توانائی کے حل کی طرف منتقل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔سیاسی استحکام معاشی ترقی کی بنیاد ہے۔ ایک مستحکم حکومت طویل مدتی اصلاحات کے نفاذ کو ممکن بناتی ہے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو فروغ دیتی ہے اور پالیسی کے تسلسل کو یقینی بناتی ہے۔ انسانی سرمائے کی ترقی پاکستان کی معاشی بحالی اور پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہے۔ عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق انسانی سرمائے میں بہتری سے طویل مدت میں پاکستان کی جی ڈی پی میں اٹھارہ فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ تعلیم، غذائی تحفظ اور صحت کی دیکھ بھال میں  سرمایہ کاری ملک کی نوجوان آبادی کی طرف سے پیش کردہ آبادیاتی فوائد کو بروئے کار لاتے ہوئے افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے۔ سماجی نقل و حرکت کو فروغ دینے اور معاشی شمولیت کو فروغ دینے کے لئے صنفی تفاوت دور کرنا اور معیاری عوامی خدمات تک رسائی کو بڑھانا آنے والے دنوں میں اہم ہوگا۔