موسمیاتی تبدیلی کا سال

 ایک لمحے کے لئے تصور کریں کہ ایک ایسا ملک جو آب و ہوا کی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس کے ہاں برفانی تودے (گلیشیئرز) تیزی سے پگھل رہے ہیں‘ اس کے کھیت خشک ہو رہے ہیں اور اس کے آسمان بارش سے محروم ہیں تو ایسے ملک میں زندگی کیسی ہو گی؟ اچھی بات یہ ہے کہ آپ کو تخیل پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اپنے گردوپیش کو دیکھ لیں۔ یہ پاکستان کی کہانی ہے۔ پاکستان آب و ہوا کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے جو گرم ہوتے ہوئے سیارے اور بے حس دنیا کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ رواں صدی کے آخر تک درجہ حرارت میں 1.3 سے 4.9 سینٹی گریڈ کے درمیان متوقع اضافے سے زراعت بڑی طرح متاثر ہو گی جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتی ہے اور خطرہ یہ بھی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث مزید لاکھوں افراد غربت کا شکار ہو جائیں گے!دنیا کسی درجے موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں فکرمند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ’سی او پی‘ نامی اجلاس کے فیصلوں پر غور ہوتا ہے جو امید، عزائم اور سیاسی دکھاوے کا مجموعہ ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے یہ اُمید کی کرن ہے۔ مالی مدد (فنڈنگ)، ماحولیاتی انصاف کی وکالت اور بحران کے پیمانے سے مطابقت رکھنے کے لئے عالمی وعدوں پر زور دینے کا یہ ایک نادر موقع ہو سکتا ہے۔ حالیہ ’سی او پی‘ کانفرنس ’باکو‘ میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر بھی پاکستان کا کردار روایتی رہا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز بنیادی طور پر عالمی موسمیاتی سفارت کاری کی پیچیدگیوں کے لئے تیار نہیں۔ ’سی او پی‘ میں مذاکرات کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لئے تکنیکی فریم ورک، مہارت، تیاری اور مہینوں پہلے تیار کردہ مربوط حکمت عملی (لائحہ عمل) کی ضرورت ہوتی ہے اس کے علاؤہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں گہری تفہیم بھی ہونی چاہئے۔ پاکستان کے فیصلہ ساز سیمینارز، پینل مباحثوں اور نیٹ ورکنگ کی تقریبات کی میزبانی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ موسمیاتی مذاکرات کا حقیقی محور بلیو زون ہے جہاں تکنیکی مہارت اور سیاسی حکمت عملی نتائج کو تشکیل دیتی ہے اور پاکستان کی حد تک دیکھا جائے تو یہ ہماری پہنچ سے باہر ہے۔پاکستان کے لئے مسئلہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات الگ قسم کی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک تجربہ کار مذاکرات کاروں اور مضبوط ادارہ جاتی حمایت سے لیس ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اِس صورتحال میں کیا کرے۔ سب سے پہلے، ہمیں اس وہم کو ترک کرنا ہوگا کہ آگاہی‘ ظاہری حکمت عملی کے متبادل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری ذہنیت کو بنیادی تبدیلی سے گزرنا ہوگا۔ عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف منوانا ایک میدان جنگ میں لڑنے جیسا عمل ہے جہاں کمزور قوموں کی قسمت کا فیصلہ ایسے ہی کیا جاتا ہے۔ ہم بار بار اہم بین الاقوامی آب و ہوا کی مالی اعانت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ہم اپنے حالات دنیا کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بات چیت کرنے سے پہلے تکنیکی پیچیدگیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ پیرس معاہدے کا آرٹیکل 6، جو کاربن مارکیٹوں کو کنٹرول کرتا ہے، ان میکانزم کی تفصیلی تفہیم کی ضرورت ہے جو بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر پاکستان کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے ایڈہاک اور ناقص حکمت عملی تشکیل دی جاتی ہے۔ درحقیقت پاکستان کو ان مذاکرات میں شامل ہونے کے لئے جدوجہد کرنے کی بجائے اِن عالمی مذاکرات کی قیادت کرنی چاہئے۔ پاکستان کے لئے، موسمیاتی مالیات کے اپنے منصفانہ حصے کے لئے لڑنا ہے بلکہ ایسے میکانزم کے خلاف بھی لڑنا ہے جو نادانستہ طور پر موجودہ عدم مساوات کو بڑھا  سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں، ہم ان نظامی عدم مساوات کو دور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے پاس اتحاد بنانے، مخالف دلائل کا مقابلہ کرنے اور بامعنی وعدوں کو ایفا کروانے کے لئے درکار ادارہ جاتی حکمت عملی اُور تکنیکی مہارت کا فقدان ہے جس سے ہماری پوزیشن مزید کمزور ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ پاکستان اپنا نقطہ نظر تبدیل کرے اور مجموعی طور پر عالمی موسمیاتی تبدیلی کی سفارت کاری میں اپنے کردار پر نظر ثانی کرے۔ اگر ہم وقت کے تقاضوں کو سمجھ نہیں سکتے تو اُنہیں پورا بھی نہیں کر سکیں گے، دنیا کی بے حسی برقراررہے گی جس سے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں اور پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سمیرا شیخ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)