سال دوہزارچوبیس نے بین الاقوامی اور پاکستان کی سطح پر ناقابل فراموش یادیں چھوڑی ہیں۔ جی سیون ممالک کی منافقت عیاں ہوئی ہے جس کی جغرافیائی سیاسی ترجیحات ہیں۔ غزہ، لبنان اور شام میں ہزاروں افراد کو اِس عرصے میں ہلاک اور معذور کیا گیا لیکن دنیا خاموش ہے۔ اِس خاموشی اور ظلم کی مسلسل حمایت جسے جیریمی کوربن نے ”زندہ نسل کشی“ قرار دیا تھا، نے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو متاثر کیا ہے جو مغربی ممالک نے اکتوبر 2023ء میں غزہ اور اس کے لاکھوں باشندوں کے خلاف اسلحہ فراہم کیا اُس پر انسانیت کا سر شرم سے جھکا دکھائی دیتا ہے۔ جب اسرائیل نے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں پر بم اور لیزر گائیڈڈ میزائلوں سے حملہ کیا تو مغرب نے اسرائیل کی مذمت کرنے کی بجائے اِس پر اربوں ڈالر کی بارش کی؛ صرف امریکہ سے ایک سال میں سترہ ارب ڈالر نقد اور ہتھیار فراہم کئے گئے۔ اسرائیل نے اپنے گردوپیش پر بمباری کر کے 45 ہزار افراد کو ہلاک کیا لیکن مصلحت کا شکار خود کو عالمی طاقت کہنے والے ممالک خاموش ہیں۔برطانیہ میں نئی حکومت نے جولائی 2024ء میں ذمہ داریاں سنبھالیں اُور چند قابل
ذکر اصلاحی اقدامات کئے۔ دو ستمبر کو وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اسرائیل کے 350میں سے تقریباً 30 لائسنس معطل کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ برآمدات کے لئے حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ انسانیت کے لئے واضح طور پر خطرہ ہیں اور اسرائیل کو کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی کہ وہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتا رہے یا برطانوی اسلحے کی صورت اُسے قتل عام میں سہولت فراہم نہیں کی جا سکتی۔جرمنی میں بھی 2024ء میں اسرائیل کے لئے برآمدات کم ہوئیں جو 161ملین یورو رہ گئی ہے۔ غزہ جنگ میں ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کے بارے میں فکرمند انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے احتجاج اور مطالبات کو جرمن حکومت نے اہمیت دی ہے۔ جرمن وزارت اقتصادیات کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال جرمنی نے اسرائیل کو فوجی سازوسامان اور جنگی ہتھیاروں سمیت 326.5 ملین یورو مالیت کے ہتھیار برآمد کئے جو سال 2022ء کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہیں۔ جرمنی متاثرہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کر رہا ہے تاہم بہت سے یورپی ممالک اسرائیل کی مذمت کے ساتھ اُس کی حمایت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جو بالکل مختلف طرز عمل ہے اور یہ طرز عمل ترقی پذیر ممالک میں مغربی جمہوریتوں کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔ سال 2024ء کے دوران مغربی چین میں انسانی حقوق کے بارے میں تمام تر الزامات کے باوجود جی سیون کے تقریبا تمام ممالک نے غزہ، لبنان اور شام پر اسرائیل کے حملوں پر بالواسطہ طور پر پابندیاں عائد کی ہیں۔سال دوہزار چوبیس میں القاعدہ اور داعش سے وابستہ حیات تحریک الشام (ایچ ٹی ایس) کا مغربی دارالحکومتوں اور تل ابیب میں پرتپاک استقبال دیکھا گیا جس نے جغرافیائی سیاسی منافقت کو بھی عیاں کیا ہے۔ افغان طالبان اب بھی اقوام متحدہ اور امریکہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں
جبکہ ایچ ٹی ایس کا خیرمقدم ہو رہا ہے اور دمشق پر قبضہ کرنے کے چند دنوں کے اندر ہی عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے بہت سارے نام نکال دیئے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اور ترکی دونوں نے اسد کی ظالم حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اپنے اپنے پراکسیوں کی مدد کی لیکن اس عمل سے بین الاقوامی سیاست کا دوغلا پن بے نقاب ہو گیا جس میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ممالک نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا کیونکہ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن سے بے دخل کر رہا تھا اور بالآخر شام کے ساتھ غیر فوجی زون میں منتقل ہو گیا جو گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا واضح اقدام ہے۔ رواں سال پاکستان کے لئے یادگار رہا کیونکہ اِس دوران پاکستان کے کئی سیاست دانوں نے نشیب و فراز دیکھے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور سینیٹر شیری رحمٰن دونوں نے عمران خان کے بارے میں غیر معمولی ٹویٹس کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینیل کا مذاق اڑایا۔ (بشکریہ دی ٹریبیون۔ تحریر امتیاز گل۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
شیری رحمان نے شہریوں کے خلاف فوجی مقدمات کے بارے میں گرینیل کے ریمارکس کو مسترد کرتے ہوئے اسے پاکستان کے مستحکم اور آزاد عدالتی نظام میں مداخلت قرار دیا۔ خواجہ آصف نے گرینیل کے بیان کو عمران خان کی رہائی کے لئے آپریشن گولڈ سمتھ کہا اور کہا کہ پاکستان کسی بھی بیرونی دباؤ میں نہیں آئے گا۔ خواجہ آصف کے اس بیان پر برطانوی ارب پتی زیک گولڈ سمتھ نے ایکس پلیٹ فارم کے ذریعے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ پاکستانیوں کے لئے اس سے زیادہ شرمناک کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کے تشخص اور عالمی ساکھ پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ وقت کے عالمی اور پاکستان کے رہنما ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ جنگ کی بجائے انسانیت کے احترام اور بقاء کے لئے جدوجہد وقت کی ضرورت ہے۔