کرپٹو (ڈیجیٹل) اثاثہ

پاکستان میں قومی بحث کے عنوانات سیاسی ہیں اور سیاست کی وجہ سے معیشت کو سول نافرمانی کے ذریعے نقصان پہنچانے کی کوشش جیسے سیاسی ڈرامے دیکھنے پر توجیہات مرکوز دکھائی دیتی ہیں جبکہ پاکستان کے ارد گرد کی دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور ایک ایسے نئے دور میں داخل (منتقل) ہو رہی ہے جس کی تعریف ”ٹوکنائزیشن“ کی اصطلاح سے کی جاتی ہے جبکہ ہم اپنے ہی سیاسی بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں، ہمارے ارد گرد کے ممالک نئے معاشی مواقع پیدا کرنے اور اربوں کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے ٹوکنائزیشن کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش اور خواہش ہے کہ امریکہ کو عالمی کرپٹو کا دارالحکومت بنایا جائے۔ دبئی نے کرپٹو اثاثوں میں 35ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ نائیجیریا بھی اِس قسم کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ کینیا اپنے لینڈ رجسٹری سسٹم میں بلاک چین کا استعمال کر رہا ہے۔ فلپائن اپنی 36 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کو کرپٹو کرنسیوں میں ضم کر رہا ہے۔ ایل سلواڈور نے بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر بنایا ہے جبکہ بھوٹان کے پاس بٹ کوائن میں ایک ارب ڈالر ہیں، جو اس کی سالانہ جی ڈی پی کے
 ایک تہائی کے برابر ہے۔صدر ٹرمپ کا وژن ٹوکنائزیشن پر منحصر ہے۔ دبئی کی اربوں کو راغب کرنے کی صلاحیت ٹوکنائزیشن پر منحصر ہے۔ نائجیریا کا ای نیرا ٹوکنائزیشن پر بنایا گیا ہے۔ کینیا اپنی زمین کی رجسٹری کے لئے ٹوکنائزیشن کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ایل سلواڈور کا بٹ کوائن اپنانا ٹوکنائزیشن کے بارے میں ہے اور بھوٹان کی بٹ کوائن کی کامیابی ٹوکنائزیشن کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ٹوکنائزیشن اثاثوں کی ڈیجیٹلائزیشن ہے۔ ٹوکنائزیشن بلاک چین پر حقیقی دنیا کے اثاثوں کو ڈیجیٹل ٹوکن میں تبدیل کرنے کا عمل ہے۔ اس کے بعد یہ ٹوکن بنیادی اثاثے کی ملکیت حاصل کرلیتے  ہیں۔سرکاری کاموں کو ٹوکنائز کیا جا رہا ہے۔ صحت کے ریکارڈ کو ٹوکنائز کیا جا رہا ہے۔ انڈونیشیا غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے ذریعہ کے طور پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو ٹوکنائز کرنے پر غور کر رہا ہے۔ بھارت سپلائی چین اثاثوں، جیسے انوینٹری اور انوائسز کو ٹوکنائز کرنے پر غور کر رہا ہے تاکہ لیکویڈیٹی کو کھولا جا سکے۔ ویت نام، تھائی لینڈ، روانڈا، سینیگال، گھانا، کمبوڈیا اور ہونڈوراس زمین کے مالکانہ حقوق کو محفوظ اور ناقابل تبدیل کرنے، اراضی کے تنازعات کم کرنے اور جائیداد کے لین دین کو آسان بنانے کے لئے زمین کے مالکانہ حقوق کو ٹوکنائز کرنے میں مصروف ہیں۔ رئیل اسٹیٹ، سونا، چاندی، تیل، اسٹاک، بانڈز، تعلیمی اسناد، کاریں، کشتیاں، قابل تجدید توانائی کے سرٹیفکیٹ اور یہاں تک کہ ووٹنگ کے حقوق بھی ٹوکنائزڈ کیے جا رہے ہیں۔ ٹوکنائزیشن عالمی معیشت کو نئی شکل دے رہی ہے۔ ٹوکنائزیشن کا مطلب اثاثوں تک رسائی کو جمہوری بنانا ہے۔ ٹوکنائزیشن مالی شمولیت میں اضافہ کر رہی ہے۔ ٹوکنائزیشن جدت طرازی کو فروغ دے رہی ہے۔ ٹوکنائزیشن نئے مواقع کھول رہی ہے اور ٹوکنائزیشن عالمی ترقی کو چلا رہی ہے۔ ٹوکنائزیشن عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔سکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کو واضح اور جامع قواعد و ضوابط تیار کرنے چاہئیں جو ٹوکنائزیشن کی سرگرمیوں کے لئے قانونی فریم 
ورک کا خاکہ پیش کریں، بشمول ڈیجیٹل اثاثوں کے اجرأ، ٹوکن کی فروخت اور پیش کشوں‘صارفین کے تحفظ کے اقدامات کے گئے ہیں۔ ایس ای سی پی کو سازگار ریگولیٹری ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ ایس ای سی پی کو جدت  کو فروغ دینا ہوگا۔ ایس ای سی پی کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کرنی چاہئے۔ اسی حوالے سے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایس ای سی کے چیئرمین گیری جینسلر کے ریگولیٹری نقطہ نظر کو تنقید کا نشانہ بنایا، خاص طور پر ٹوکنائزیشن کے حوالے سے، اور کہا کہ وہ اپنے عہدے کے پہلے دن جینسلر کو برطرف کر دیں گے۔ٹوکنائزیشن ایک ایسے مستقبل کی تشکیل کر رہی ہے جہاں رئیل اسٹیٹ، سونا، چاندی، تیل، سٹاک، بانڈز، تعلیمی اسناد، کاریں، کشتیاں، قابل تجدید توانائی کے سرٹیفکیٹ اور یہاں تک کہ ووٹنگ کے حقوق جیسے اثاثوں کو ڈیجیٹل ٹوکن میں تبدیل کیا جائے گا، جس سے سرحدوں کے آر پار بلا تعطل تجارت اور ملکیت کی منتقلی ممکن ہوگی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علامتی معیشت کا کھلاڑی بنے گا یا کنٹینرز، دھرنوں، سول نافرمانی اور دیگر زیرو سم سیاسی ڈراموں پر منحصر رہے گا؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)