پاکستان کا فوڈ ایکسپورٹ سیکٹر تضادات کا مجموعہ ہے۔ ریکارڈ توڑ کامیابیوں کا دعویٰ کرنے کے باوجود‘ یہ نظام ملک کی معاشی ترقی میں خاطرخواہ کردار ادا نہیں کر رہا۔ حالیہ اعداد و شمار گواہ ہیں کہ مالی سال 2023-24ءمیں حاصل کردہ 8 ارب ڈالر کے تاریخی برآمدی سنگ میل کو حاصل کرنے کا جشن اپنی جگہ اہم جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 37فیصد زیادہ ہے لیکن یہ پائیدار ترقی نہیں۔ دوسری طرف‘ برآمدات کی راہ میں حائل نظام کی خرابیاں پریشان کن ہیں۔ درحقیقت پاکستان کا برآمدی شعبہ دوہرے پن کا شکار اور اس سے نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے اور یہ سب اس لئے اہم ہے کیونکہ ایک ایسا ملک جو اپنے بنیادی ڈھانچے اور پالیسی خامیوں کی وجہ سے صلاحیتوں سے بھرا ہوا ہے۔ ماہرین منظم کاشتکاری کے بنیادی ڈھانچے پر انحصار کرنے میں ناکامی اور نقل و حمل کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو برآمدات کی کمی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں گوشت کی برآمدات میں تاریخی اضافے کے باوجود یہ برآمدات 430.89 ملین ڈالر تک جا پہنچی ہیں تاہم اس میں اضافہ ممکن ہے اگر مضبوط سپلائی چین اور جدید طریقوں کو اپنایا جائے۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جو اس بنیادی سوال کو جنم دے رہی ہیں کہ کیا پاکستان کو برآمدات میں ملنے والی حالیہ کامیابی اسٹرٹیجک ذہانت کی پیداوار ہے یا
محض بیرونی عوامل کی وجہ سے اسے خوش قسمتی قرار دیا جانا چاہئے؟ اگرچہ مشرق وسطیٰ کو پاکستان کی گوشت کی برآمدات 430.89ملین ڈالر تک پہنچ گئیں لیکن یہ کامیابی ملکی سطح پر اصلاحات کا نتیجہ نہیں بلکہ بیرونی مارکیٹ کی حرکیات کی وجہ سے ہے۔ خوراک کی برآمدات پر بھارت کی پابندیوں اور یوکرین کے بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں نے پاکستانی مصنوعات کے لئے نئی منڈیاں اور نئے امکانات پیدا کئے ہیں لیکن دوسروں کی غلطیوں پر انحصار پائیدار حکمت عملی قرار نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان کی چاول کی برآمدات کی کہانی اس کمزوری کی عکاسی کرتی ہے۔ مالی سال 2023-24ءمیں پاکستان سے چاول کی برآمدات چار ارب ڈالر رہیں لیکن یہ کامیابی ایک تو مستقل نہیں اور دوسرا اسے مستقبل میں خطرے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ہمارا اہم حریف بھارت اپنی اقتصادی پابندیاں اٹھا رہا ہے اور جارحانہ انداز میں مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہو رہا ہے۔ پاکستانی چاول برآمد کنندگان کو اب بھارتی نان باسمتی چاول سے مقابلہ کرنے کا چیلنج درپیش ہے جو 100ڈالر فی ٹن سستا ہے۔ قیمتوں میں یہ شدید تفاوت پاکستان سے برآمد ہونے والے چاول کے لئے مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جو چیز برآمدکنندگان کو مایوس کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ بامعنی کاروائی کے بغیر ان مسائل کا بار بار اعتراف کیا جاتا ہے۔ پالیسی سازوں سے لے کر صنعتوں کے نمائندوں اور رہنما¶ں تک اسٹیک ہولڈرز اکثر بہتر سپلائی چینز‘ اسٹوریج کی سہولیات اور کاشتکاری کے جدید طریقوں کی ضروریات پر زور دیتے ہیں۔ اس کے باوجود‘ یہ بحثیں اکثر ٹھوس نتائج حاصل کرنے ناکافی (ناکام) رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگرچہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) نے بین الاقوامی نمائشوں اور ٹارگٹیڈ مارکیٹنگ حکمت عملی کے ذریعے پاکستانی مصنوعات کو فروغ دینے کے لئے چند قابل ستائش کوششیں کی ہیں لیکن یہ اقدامات بنیادی ڈھانچے کی کمی کی تلافی نہیں کر سکتے۔ برآمد کنندگان کو اپنی مصنوعات کی نمائش کے لئے صرف کسی پلیٹ فارم سے زیادہ بھی کئی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں ایک ایسے نظام کی ضرورت رہتی ہے جو معیار‘ کارکردگی اور مسابقت کو یقینی بنائے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے میں
ٹیکنالوجی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کاشتکاری کی جدید تکنیک‘ ڈیجیٹل اوزار اور اعداد و شمار پر مبنی فیصلہ سازی پیداوار کو بہتر بنانے اور بین الاقوامی معیارات کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان ان اختراعات کو اپنانے میں پیچھے ہے۔ یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ ہمارے برآمد کنندگان آپریشنل کارکردگی اور بین الاقوامی معیارات کی تعمیل جیسے بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہیں جبکہ دیگر ممالک ٹیکنالوجی اور پائیدار طریقوں کو اپناتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ امنگوں اور زمینی حقائق کے درمیان دوری سے برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔ چند برس میں خوراک کی برآمدات میں پچیس سے تیس ارب ڈالر تک پہنچنے کے پرعزم اہداف حاصل کرنا قابل ستائش ہیں لیکن اس شعبے کے گہرے مسائل کو حل کرنے کیلئے جامع حکمت عملی کے بغیر برآمدی اعدادوشمار کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ بجلی اور ایندھن کی زیادہ قیمتیں‘ غیر موافق ٹیکس ڈھانچہ اور بہت زیادہ شرح سود ایسی قابل ذکر چند رکاوٹیں ہیں جو برآمد کنندگان کے لئے مشکل بنی ہوئی ہیں اگرچہ نئی منڈیوں اور تجارتی راستوں کی تلاش کے لئے ریاست کی کوششیں قابل ستائش ہیں لیکن ان اقدامات کے ساتھ سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کرنے والی اصلاحات بھی ہونی چاہئیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سوہا نثار۔ ترجمہ ابوالحسن امام)