مصنوعی ذہانت: مخفی پہلو

اگر کوئی ایک فقرہ ہے جو دنیا بھر میں بحث پر غالب نظر آتا ہے تو وہ ہے مصنوعی ذہانت۔ یہ مصنوعی ذہانت کا موضوع پہلے ہی محققین، فری لانسرز، کارپوریشنز، تاجروں اور ان گنت دیگر افراد کے زیراستعمال ہے جو اِسے اپنے روز مرہ کے کاموں کو موثر اور تیزی سے سرانجام دینے کے لئے کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں، یہ ان کی زندگیوں میں یہ اور بھی اہم کردار ادا کرے گا اور یہ بے مثال سہولت فراہم کرے گا جن کی مدد سے تقریباً ہر قسم کے کام کئے جا سکیں گے۔ اسے عام طور پر ایک تکنیکی پیش رفت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے جس میں بے شمار طریقوں سے انسانیت کو فائدہ پہنچانے کی صلاحیت ہے۔ آنے والے دنوں میں کافی حد تک، یہ تصور برقرار رہ سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اب بھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور ایسا مواد تیار کرنے سے قاصر ہے جو سکول کے طالب علم کے لکھے گئے مضمون کے معیار سے کہیں گنا زیادہ ہو یا اس سطح سے تھوڑا سا اوپر ہو۔ تاہم، ذہنی ترقی کے لئے اس کی صلاحیت بہت زیادہ ہے اور زیادہ تر ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت میں پیش رفت ناگزیر ہے لیکن کیا یہ لازمی طور پر ایک اچھی چیز ہے؟ مصنوعی ذہانت کی کئی اشکال ہیں، جو قدرتی ذہانت سے مختلف ہے جس کے ساتھ انسان پیدا ہوتا ہے اور اپنی پوری زندگی اس پر انحصار کرتا ہے۔ ذہانت کی اس متبادل، حریف یا شاید تکمیلی شکل کے ساتھ مل جل کر رہنا انسانیت کے لئے کیا مطلب رکھتا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی کھوج اور تفہیم کی ضرورت ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں پہلے ہی افرادی قوت بڑی تعداد موجود ہے، مصنوعی ذہانت کا استعمال تشویشناک ہے کیونکہ یہ افرادی قوت کی جگہ لے گا جیسا کہ ہوٹلوں کے استقبالیوں کی دیکھ بھال کرنا یا گروسری اسٹورز میں کیش ٹیل چلانا وغیرہ جیسے امور مصنوعی ذہانت سے کئے جا سکتے ہیں۔ کیا انسانی افرادی قوت کی جگہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے معاشرے کو نقصان پہنچے گا یا اس سے معاشرے کو مدد ملے گی؟ اِس سوال کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ افراد اپنے فائدے کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے علم اور مہارت سے لیس ہو سکتے ہیں تاہم پاکستان میں اس طرح کے اقدامات پر عمل درآمد چیلنجوں سے بھرا ہے۔ مصنوعی ذہانت کو صحیح معنوں میں فائدہ مند بنانے کے لئے، اس کے استعمال میں تعلیم اور تربیت کا آغاز اسکول کی سطح سے ہونا چاہئے، جس میں پرائمری گریڈ کے اوائل میں اسباق متعارف کرائے جائیں گے۔ اس کے باوجود پاکستان کے تعلیمی نظام کی حقیقت اِس کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں۔ ملک کی سرکاری شرح خواندگی ساٹھ فیصد سے کچھ اوپر ہے اور خواتین کے لئے یہ شرح اور بھی کم ہے۔ عملی طور پر، تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ حقیقی خواندگی کی شرح اس سے بھی کم ہے کیونکہ خواندگی کو اکثر کسی دستاویز پر دستخط کرنے یا بنیادی عددی کام انجام دینے کی صلاحیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس تلخ حقیقت سے پتہ چلتا ہے کہ مصنوعی ذہانت پاکستان کی غریب آبادی کو درپیش مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے، جس سے غریبوں اور دولت مندوں کے درمیان فرق بڑھ سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر کاملہ حیات۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)

اسی طرح کی دلیل دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی پیش کی جا سکتی ہے جنہیں یکساں قسم کے چیلنجز درپیش ہیں۔ مصنوعی ذہانت ہمیں سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں پر غور کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں، جہاں سماجی تنہائی پہلے سے ہی بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، کیا مصنوعی ذہانت ہماری زندگیوں کو زیادہ مربوط یا ہماری تنہائی میں اضافہ کرے گی؟ اخلاقی خدشات مصنوعی ذہانت کی بحث کی ایک اور اہم جہت ہیں۔ مصنوعی ذہانت، جذبات، ہمدردی، یا ہمدردی سے عاری ہونے کی وجہ سے، بغیر اخلاقیات کے پیمانے یا معیار کام کرتی ہے۔ ان خوبیوں سے بے نیاز ذہانت ایک انتہائی پریشان کن شے ہے۔ یہ سارا منظر نامہ کسی سائنس فکشن کہانی سے مشابہت رکھتا ہے، جس میں روبوٹس اور مصنوعی مخلوقات انسانی معاشرے پر حاوی ہو جائیں جن کا تصور قصے کہانیوں میں بکثرت ملتا ہے۔ مصنوعی ذہانت روزگار اور پیداواری صلاحیت کو ازسرنو ترتیب دے سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے نئی قسم کی ملازمتوں کے مواقع بھی کھلیں گے، جن کا ہم ابھی تک تصور بھی نہیں کر سکتے۔ دیگر رائے رکھنے والے تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت غیر متناسب طور پر کمزور آبادیوں کو متاثر کرے گی۔ اے آئی ایک آلہ ہے اور کسی بھی آلے کی طرح، اس کا اثر اس بات پر منحصر ہوگا کہ اس کا کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں صنعتوں میں انقلاب لانے، صحت کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے اور پیچیدہ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت ہے۔ ایک ہی وقت میں، اس کے غلط استعمال اور غیر متوقع نتائج کا خطرہ بھی موجود ہے۔