ڈیجیٹل ایکوسسٹم: معاشی وجودی بحران

ایک سادہ سا واٹس ایپ پیغام بھیجنا، انٹرنیٹ براؤز کرنا یا یہاں تک کہ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنا چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے لئے روزمرہ کا امتحان بن چکا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک انٹرنیٹ کی گرتی ہوئی رفتار سے نبرد آزما ہے، ہمارے ڈیجیٹل ایکو سسٹم اور معیشت کو وجودی بحران کا سامنا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ بحران جلد حل کیا جائے گا۔پاکستان کی انٹرنیٹ رینکنگ‘ انٹرنیٹ کی رفتار کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کا 198واں نمبر ہے، تشویشناک بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ رفتار کے لحاظ سے پاکستان جنگ زدہ فلسطین اور لیبیا سے بھی پیچھے ہے۔ مختلف اسٹیک ہولڈرز کی مخالفت اور یہاں تک کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے قابل عمل جواب کے مطالبے کے باوجود اس معاملے پر حکومت  خاموش ہے اور انٹرنیٹ سے جڑے کاروبار اُور طلبہ کے لئے یہ امر پریشانی کا باعث ہے کیونکہ کوئی واضح اُور ٹھوس بات سامنے نہیں آ رہی۔ حکام کی بے حسی گورننس کی ناکامی کا اشارہ ہے جو ممکنہ طور پر ملک کو ڈیجیٹل گمنامی میں دھکیل سکتی ہے۔انٹرنیٹ کا گلا گھونٹنا اب محض تکلیف دہ نہیں رہا بلکہ معاشی بحران بن چکا ہے۔ ٹیلی کام آپریٹرز کو انٹرنیٹ کی سست رفتار کی وجہ سے سالانہ بارہ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ کچھ تخمینوں کے مطابق یہ نقصانات دس لاکھ ڈالر فی گھنٹہ ہیں جبکہ دیگر صنعتی ماہرین کا تخمینہ ہے کہ مجموعی نقصانات سالانہ تین سو ملین ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں کیونکہ آئی ٹی کی برآمدات کم ہو رہی ہیں جن کی موجودہ مالیت 3.2 ارب ڈالر ہے اور یہ برآمدات جمود کا شکار ہیں‘ جس کی وجہ سے حکومت کا آئی ٹی برآمدات کا پندرہ ارب ڈالر کا ہدف ملنا غیر حقیقی نظر آ رہا ہے۔ پانچ ارب ڈالر کا ای کامرس سیکٹر جلد ہی کام کرنا چھوڑ دے گا جبکہ لاکھوں فری لانسرز کو پہلے ہی آپریشنل رکاوٹوں کا سامنا ہے اور وہ فری لانسنگ پلیٹ فارمز تک رسائی کھو چکے ہیں جو ان کے ذریعہ معاش اور کلائنٹ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے متعلق اعداد و شمار مسئلے کے صرف ایک پہلو کو ظاہر کرتے ہیں۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی طویل دورانئے سے سست روی نے عالمی سطح پر پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے اُور آئی ٹی کمپنیاں اپنے کاروبار مجبوراً بیرون ملک منتقل کر رہی ہیں۔ پاکستان کو ٹیک ٹیلنٹ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ”بڑے پیمانے پر نقل مکانی“ کے خطرے کا سامنا ہے، جو اس کی نوزائیدہ ٹیک انڈسٹری اور اس طرح وسیع تر معیشت کے لئے دھچکا ہے اور اِس پوری صورتحال کے منفی اثرات معاشی ناکامیوں سے بھی آگے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ سست روی اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) جیسے پلیٹ فارمز تک رسائی کو محدود کرنا ڈیجیٹل حقوق سے متعلق آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کے دور سے گزر رہی ہے اور پاکستان اس صنعتی انقلاب سے پیچھے ہے۔ انٹرنیٹ اب عیش و عشرت نہیں رہا۔ یہ معیاری تعلیم‘ مؤثر مواصلات اور معلومات تک رسائی کے لئے ضرورت بن چکا ہے۔ یہ پابندیاں ڈیجیٹل ناانصافی کا ایک رخ ہیں جس میں شہریوں کو اہم معلومات اور اظہار رائے کی آزادی تک رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے اور جہاں اختلاف رائے کو پابندیوں کے ذریعے دبایا جاتا ہے۔ پاکستان کے بہت سے فری لانسرز، طلبہ اور کاروباری اداروں کے لئے، قابل اعتماد انٹرنیٹ تک رسائی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود وہ اس لائف لائن سے محروم ہیں اور سیاسی من مانیوں اور مربوط پالیسی کے فقدان کی وجہ سے ڈیجیٹل منظر نامے سے گزرنے پر مجبور ہیں۔ نتیجہ کیا ہے؟ بڑھتی ہوئی مایوسی اور گھٹتی ہوئی آمدنی کے ساتھ بہتری کی امید۔ انٹرنیٹ کی رفتار کم کرنے کا فیصلہ دور اندیشی کی کمی کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈیجیٹل رکاوٹیں اور پابندیاں جدت اور انٹرپرینیورشپ (آن لائن کاروبار) کو روک رہی ہیں، جو معاشی ترقی اور خوشحالی کے دو اہم محرک ہیں۔ جہاں ترقی پسند ممالک مضبوط، عالمی سطح پر مسابقتی ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی تعمیر میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، وہیں پاکستان کو ان شعبوں میں بحرانوں کا سامنا ہے۔ اگر انٹرنیٹ کی رفتار بحال کر دی جائے تو یہ معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اُور قومی فیصلہ سازوں کو نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا چاہئے۔براڈ بینڈ کنیکٹی ویٹی کو وسعت دینا، زیر سمندر کیبلز کو اپ گریڈ کرنا (انہیں شارک پروف بنانا) اور آئی ٹی فرموں اور فری لانسرز کی مدد کرنا بھی اہم اُور ضروری اقدامات ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر علی گردیزی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 انٹرنیٹ رابطہ کاری کو بنیادی انسانی حق اور آزادی کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے، جو قومی ترقی اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کے لئے ناگزیر ہے۔