آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی میں تعطل کے باعث آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں جواب طلب کرلیا۔ ترجمان اوگرا عمران غزنوی کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے شیل پاکستان لمیٹڈ، اٹک پیٹرولیم لمیٹڈ اور ٹوٹل پارکو پاکستان لمیٹڈ کو نوٹس جاری کیے۔
بعدازاں وزیراعظم سٹیزن پورٹل پر ریٹیل آؤٹ لیٹس پر تیل کی فراہمی میں قلت کی شکایات پر اوگرا نے مزید 3 آئل مینوفیکچرنگ کمپنیز گیس اینڈ آئل، پوما اور ہیسکول کو بھی شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ اتھارٹی کی جانب سے مذکورہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز سے 24 گھنٹے میں جواب طلب کرلیا۔
اوگرا کی پیٹرول پمپس کے خلاف کارروائی کی ہدایت
علاوہ ازیں اوگرا کی جانب سے چاروں صوبائی، گلگت اور آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹریز کو ارسال کردہ خط میں آگاہ کیا گیا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں لائسنس یافتہ او ایم سیز کے پیٹرول پمپس پر پیٹرولیم مصنوعات کی قلت سے متعلق رپورٹ کیا جارہا ہے جس کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ وزرات توانائی کی ہدایات کی روشنی میں اوگرا نے پہلے ہی او ایم سیز کو مصنوعات کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اوگرا نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسرز (ڈی سی اوز) کو اپنے دائرہ کار میں ذخیرہ اندوزی میں ملوث پیٹرول پمپس کے خلاف پرائس کنٹرول اینڈ پریوینشن آف پروفیٹرنگ اینڈ ہورڈنگ ایکٹ 1977 کے تحت کارروائی کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایسے ریٹیل آؤٹ لیٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی جاتی ہے تاکہ اوگرا، او ایم سیز یا ڈیلر کے خلاف ضروری کارروائی کرسکے۔
خیال رہے کہ یکم جون کو پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے اوگرا کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ موگاز اور او ایم سیز کی جانب سے یکم جولائی 2020 سے پیٹرولیم مصنوعات میں ہونے والے ممکنہ اضافے کا مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ملک بھر میں ریٹیل آؤٹ لیٹس پر مصنوعات کی فراہمی میں کمی کی جاسکتی ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ بحرانی صورتحال سے بچنے کے لیے ریگولیٹر ہونے کی حیثیت سے اوگرا کو او ایم سیز کو ملک میں ہر ریٹیل آؤٹ لیٹ پر اسٹاکس کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کرے۔
خط میں کہا گیا تھا کہ اس سلسلے میں اوگرا، او ایم سیز کے ڈیپوز/ٹرمینلز/آؤٹ لیٹس پر اسٹاکس کی تصدیق کے لیے ٹیمیں بھی تعینات کرسکتی ہے۔ بعدازاں گزشتہ روز اوگرا کی جانب سے آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو ارسال کیے گئے خط میں پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں صارفین کو پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی میں کمی سے متعلق رپورٹ کیا جارہا ہے اور ایچ ڈی آئی پی سے بھی تصدیق کی گئی ہے کہ کئی ریٹیل آؤٹ لیٹس پر پیٹرول موجود نہیں یا اس کی قلت ہے جس کے باعث صارفین کو فراہمی متاثر ہورہی ہے۔
اوگرا نے کہا تھا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ صارفین کو کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔ خیال رہے کہ تیل کمپنیوں نے درآمد کا حکم نہیں دیا تھا اور انوینٹری نقصانات سے بچنے کے لیے قیمتوں میں کمی کے امکان کے تحت ریفائنریز سے مقامی پیداوار کو کم کیا ہے۔
قواعد کے تحت تمام تیل کمپنیوں اور ریفائنریز لائسنس کے تحت پابندی ہیں کہ وہ ہر وقت پیٹرولیم مصنوعات کے کم سے کم 21 دن کے استعمال کا احاطہ یقینی بنائیں، چاہے ملک حالت جنگ میں ہو یا امن میں۔ تاہم بدقسمتی سے 80 سے 90 تیل کی پیداواری کمپنیز اور ریفائنریز میں سے کسی نے بھی اس لازمی ضرورت کو پورا نہیں کیا اور گزشتہ چند دنوں سے ملک کا پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کا تقریباً مجموعی اسٹاک اوسطاً 11 دنوں سے زیادہ کا نہیں تھا۔
29 مئی کو ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سے تمام مصنوعات اور تمام کمپنیوں کے ریٹیل اسٹیشن اور اسٹاک پوزیشن کی تصدیق کرنے کے لیے کہا گیا کیونکہ یہ اس عمل کے لیے وقت درکار تھا اور پہلے ہی تاخیر ہوچکی تھی۔ آخری کوشش کے طور پر پیٹرولیم ڈویژن نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے ذریعے کوشش کی تھی کہ دو ہفتوں تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو لیکن ای سی سی نے بھی آخری لمحے میں معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کردیا۔
پیٹرولیم ڈویژن نے باضابطہ طور پر اسے روکنے کا مطالبہ کیا تھا اور تیل کی صنعت کو موجودہ نرخوں پر فروخت کرکے اپنے کچھ نقصانات کی تلافی چاہی۔ اس نے ای سی سی کو متنبہ کیا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی جس کو معمول پر آنے میں ہفتوں اور مہینوں لگ سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کے اسٹاک غیر معمولی طور پر کم تھے۔
تاہم وزارت نے اپنی سمری میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ تیل پیدا کرنے والی کمپنیز اور ریفائنریز کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ 21 دن تک کے اسٹاک کو برقرار رکھیں اور نہ ہی اس نے اطلاع دی کہ تیل کمپنیاں 3 برسوں سے انوینٹری فوائد کے ذریعے ونڈ فال منافع کما رہی ہیں اور اس طرح کا فائدہ کبھی بھی صارفین یا قومی خزانے کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا تھا۔