حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاست میں پھنسے پاکستان کے عوام پریشان ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ نواز لیگ کا بیانیہ سن کر نیا عمران خان بن گیا ہے اور اب کسی ڈاکو کا ’پروڈکشن آرڈر‘ جاری نہیں کیا جائے گا۔ کسی کو وی آئی پی جیل نہیں ملے گی۔ نیب اور عدالتیں جلد مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائیں گی جبکہ نواز شریف فوج اور عدلیہ میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بقول وزیراعظم نواز شریف عدالتوں میں انتشار پھیلانے اور پاک فوج بشمول خفیہ اداروں کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں جبکہ پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے جس طرح مشکل وقت میں حکومت کی مدد کی اور 2 سال فوج نے دفاعی اخراجات میں کمی کی۔ ہر جگہ اور حکومت کی فارن پالیسی پر جنرل باجوہ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں جبکہ نواز شریف کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت اور فوج میں دراڑ ڈالیں یا فوج میں انتشار پیدا کریں۔ پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو پاناما کیس میں احتساب عدالت کی طرف سے قید و جرمانے کی سزا ہوئی۔ مذکورہ مقدمات میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے اُنہیں تاحیات نااہل قراردیا۔ مذکورہ بنچ کے اراکین میںسے جسٹس گلزار‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ نواز شریف کے خلاف فیصلوں کی بنیاد گیارہ رکنی ’تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی)‘کی رپورٹ بنی تھی۔ ایک کیس میں سزا کے خلاف اپیل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا معطل کر دی تھی‘ دوسرے میں نواز شریف جیل میں تھے کہ ان کی شدید بیماری کی خبریں شائع ہونے لگیں۔ وہ کئی دن ہسپتال میں داخل رہے۔ ان کا اصرار تھاکہ علاج کے لئے برطانیہ بھیجا جائے۔ حکومت کی طرف سے اِن کی اِنتہائی مخدوش صحت کے باعث برطانیہ جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس نے بھی مشروط اور چند ہفتوں کی ضمانت دے دی۔ حکومت نے سات ارب بیس کروڑ روپے کے ’ایڈمنٹی بانڈ‘ کی شرط رکھی۔ یہ بانڈ فوری طور پر جمع کرا کے برطانیہ جانے کے بجائے عدالت سے رجوع کرنے کو ترجیح دی گئی جس نے حکومت کی یہ شرط ختم کر کے نواز شریف کے برادرِ خود شہباز شریف کی ضمانت پر برطانیہ جانے کی اجازت دیدی۔ کچھ لوگوں کی طرف سے ڈیل کی باتیں سامنے آئیں۔ کچھ فوج کی طرف‘ انہیں لندن بھجوانے کی داستانیں تراشتے رہے۔نواز شریف لندن گئے تو آج تک کسی ہسپتال میںداخل نہیںہوئے۔ وہاں سے ان کی دیگر سرگرمیوںکی تصاویر آتی رہیں‘ جن میںسیاسی امور بھی شامل تھے۔ لاہورمیں وہ بستر سے لگے ہوئے بتائے جاتے رہے۔ ائر پورٹ سے جہاز میں سوارہوئے تو اُس طرح کے بیمار نہیں لگ رہے تھے جیسا باور کرایا جاتا رہا تھا۔ ایک موقع پر نواز شریف کے ذاتی معالج نے ان کے ہسپتال داخل کی تاریخ کے بارے میں ٹویٹ کیا اور اگلے روز ڈاکٹر عدنان ہی نے کہا کہ میاں صاحب نے واضح کیا ہے کہ ان کی صاحبزادی برطانیہ آئیں گی تب ہی وہ آپریشن کرائیں گے۔ مریم نواز نے برطانیہ جانے کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا مگر اجازت نہ مل سکی۔ آج نوازشریف الزام عائد کر رہے ہیں کہ پاکستان میں سب کچھ پاک فوج ہی کرتی ہے۔ ان کے نمائندے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقاتیں کرتے ہیں جس کی تصدیق ملاقاتیں کرنے والوں اور مریم نواز نے بھی کی ہے۔ نوازشریف کے نمائندے فوج کی اعلیٰ قیادت سے کیوں ملاقاتیں کرتے رہے؟ مریم نواز کی طرف سے کہا گیا کہ چار گھنٹے میں ملاقات کی نوازشریف اور مریم کی بات تو ہونی ہی تھی۔ جن مقاصد کے لئے نوازشریف کے بااعتماد ساتھی پاک فوج کی قیادت سے ملتے رہے بادی النظر میں ان کے حصول میں کامیابی نہ ہونے پر میاں نواز بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور پاک فوج کے خلاف یک طرفہ محاذ کھول لیا ہے‘ جو قطعی غیردانشمندانہ اور غیرذمہ دارانہ طرز عمل ہے۔ عدلیہ کے بارے میں بھی وہ خیر کا کلمہ نہیں کہہ رہے۔ گوجرانوالہ کے جلسہ میں تو نوازشریف نے انتہا کر دی۔ حتیٰ کہ اُن کے بیانیے کی ان کی جماعت کی سینئر قیادت اس کی کھل کر حمایت نہیں کر رہی۔ پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف تین بار ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر رہنے والا شخص بات کرے گا تو اداروں کی بدنامی کا اور جگ ہنسائی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جن عدالتوں نے نوازشریف کو علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی وہی انہیں واپس آنے کو کہہ رہی ہیں۔ انہیں اشتہاری اور مفرور قرار دیا جا رہا ہے۔ نوازشریف کا یہ انکاری رویہ اور اداروں کے بارے میں بیانیہ حکومت کو ان کی واپسی کے لئے کسی بھی حد تک جانے پر مجبور کرتا ہے۔ منطقی ردعمل تھا کہ وزیراعظم گوجرانوالہ میں سابق وزیراعظم کے خطاب پر غصے میں نظر آئے۔ حکومت کی طرف سے نوازشریف کی واپسی کے لئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوشش ضروری ہونی چاہئے۔ پروڈکشن آرڈر جاری کرنے ہیں یا نہیں اس کا بھی قانونی طریقہ کار موجود ہے۔ عدالتوں سے ہر شہری جلد فیصلوں کی توقع رکھتا ہے۔اس حوالے سے حکومت‘ عدلیہ اور احتساب کے اداروں کی جو بھی ممکن ہے‘ مدد ضرور کرے۔ نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید اور وزیراعظم کا جوابی جارحانہ اَنداز سیاسی بحران کو بڑھا سکتا ہے۔ ایسے ممکنہ بحران سے جمہوریت ڈی ریل ہو سکتی ہے جس کا ادراک ہر دو فریقوں حکومت اور اپوزیشن کو ہونا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر اختر رضوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)