سیاسی ستم ظریفیاں

پاکستان کی سیاست ہنگامہ خیزی کا مرکب ہے جو مرتبہ پھر ایسے موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں جمہوریت سے مراد فقط وزیرِاعظم‘ کارکردگی سے مراد فقط احتساب اور سیاست سے مراد فقط احتجاج ہے۔ حزب اختلاف اور حکومت دونوں کے پاس اگر کوئی پروگرام ہے تو وہ اپنے ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانا ہے تاہم اس سلسلے میں عوامی مسائل کا ادراک کم دیکھنے میں آرہا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک عام شہری کی مشکلات اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف سیاسی ہلچل کی صورت میں بھی ایک عام آدمی کے روزگار پر اثر پڑے گا اگر ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ وسیع ہوتا جائے گا تو لازمی طورپر کاروبارزندگی متاثر ہونگے۔اس لئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے پاس دلیل یہ ہے کہ جب مسلم لیگ (نواز) کی حکومت برطرف ہوئی تو اس وقت ساری حزب اختلاف کی جماعتیں جعلی مقدمات کا سامنا کر رہی تھیں۔ میڈیا پر بدترین وقت تھا ۔ یہ دلیل اس حکومت کے وفاقی وزیر کی ہے جسے خود انتقام کی سیاست‘ صحافتی پابندیوں اور ’آئی ایم ڈیموکریسی‘ جیسی خود فریبی کا سامنا ہے۔ سیاست کا اختصار یہ ہے کہ کچھ نہیں بدلا۔ 1999ءکے وزیرِاعظم کو یہ زعم تھا کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور سال 2020ءکے وزیرِاعظم کو بھی یہی زعم ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے وزرائے اعظم کا فقط یہ زعم ہی ہے۔ سال 1998ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف پاکستان عوامی اتحاد کے پلیٹ فارم سے گوجرانوالہ میں شیرانوالہ باغ جلسے سے خطاب کیا تھا۔ اس جلسے میں نعرہ ’گو نواز گو‘ تھا لیکن اب بائیس سال بعد یعنی 2020ءمیں جب پیپلز پارٹی گوجرانوالہ کے عوام سے مخاطب ہے تو اب کی بار اس کا نعرہ ’گو عمران گو‘ ہے اور پلیٹ فارم پاکستان ڈیموکریٹ الائنس (پی ڈی ایم) ہے۔ سیاست کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اہل جمہور کل بھی جمہوریت بچانے کے لئے جمہوری حکومت کو سینگوں پر اچھالنے کی مشق کر رہے تھے اور آج بھی ایک منتخب وزیرِاعظم کو سلیکٹڈ کی سند دے کر جمہوریت فتح کرنا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے اکھاڑے میں اترنے والی تمام جماعتیں گوکہ اپنی طرز اور اپنی ہیئت میں ایک دوسرے سے ایک سو اَسی ڈگری کا اختلاف رکھتی ہیں مگر پی ڈی ایم کے جلسے میں شانہ بشانہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہیں۔ سیاسی شعبدہ گری کا یہ کھیل اپوزیشن اور حکومت دونوں کے لئے برابر مہلک ہے۔ حکومت نے حزب اختلاف کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں اور احتساب کی لاٹھی سے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو ہانکنے کی کوشش کی۔ گوکہ ایک وقت تھا جب بڑی سرکار نے نکتہ اعتراض اٹھایا تھا کہ دونوں جماعتوں کو ایک ہی وقت میں اپنے سینگوں پر سوار کرنے کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوسکتا ہے مگر خان صاحب تو خان صاحب ہیں‘ انہیں یہ خام خیالی لے ڈوبی کہ ملکی دولت لوٹنے والوں کو احتساب کے بیانے میں جکڑ دیں گے تو سیاست میں بلے بلے بھی ہوجائے گی اور ڈوبتی معیشت پر سوال بھی نہیں اٹھیں گے۔ خان صاحب نے ’این آر او نہیں دوں گا‘ کے اس خیالی بیانے میں اپنا سب کچھ قربان کردیا یعنی منتخب وزیرِاعظم کو بمشکل ملنے والا وقت‘ عوام کا روزگار‘ ملکی معیشت‘ حکومت کی درست سمت‘ درست ترجیہات‘ بحرانوں کا حل‘ حتیٰ کے مفلس کی دو وقت کی روٹی بھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیرِاعظم نے اپنا بیانیہ بھی قربان کردیا لیکن ہاتھ کچھ بھی نہیں آیااور رہا اپوزیشن کا معاملہ تو ان کے کھیل میں رسک اس سے بھی زیادہ ہے۔ جلسے‘ احتجاج اور عوام کا ہجوم لے کر وہ سیاست کے آسمان تک پہنچ بھی گئے تو عین ممکن ہے کہ اس کھیل میں موجود تیسرا کھلاڑی اگر ان کے پاو¿ں کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لے تو یہاں بھی کچھ نہیں آئے گا۔ پاکستان نیشنل الائنس‘ اسلامی جمہوری اتحاد‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ملک گیر احتجاجی مظاہروں‘ ریلیوں اور جلسوں کا حاصل کیا تھا؟ پی ڈی ایم کے جلسوں کو اگر سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے اپنی سیاست کو بہت حد تک زندہ کر لیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی سیاست کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی ہے۔ جیالیوں کو متحرک کیا ہے اور شہباز شریف کی عدم موجودگی میں بلاول بھٹو اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پھر وزیرِاعظم بلاول بھٹو کے نعرے بھی گونجے‘ یوں محسوس ہوا جیسے بلاول بھٹو اس قلعے کو فتح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا تاج کسی اور کے سر کے لئے ہے۔ ماضی میں اے آر ڈی کی تحریک کے چیئرمین گوکہ نوابزادہ نصراللہ خان تھے مگر تحریک کا چہرہ کلثوم نواز بنی اور آج پی ڈی ایم کا چہرہ مریم نواز ہیں۔ اس جلسے میں ایک واضع فرق محسوس ہوا۔ ممکن ہے میاں صاحب اپنی سیاست کی کشتیاں جلاکر جانشین کےلئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: مہر بخاری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)