ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے اصلاحات متعارف کروائیں جن پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کیلئے سرکاری و نجی جامعات کے سربراہوں (وائس چانسلرز) کا ایک اجلاس گزشتہ ہفتے بھوربن میں ہوا۔ جس کا بنیادی مقصد انڈرگریجوئٹ اور پوسٹ گریجویٹ سے متعلق حکمت عملیوں اور اِن پر عمل درآمد کا جائزہ لینا تھا۔ اجلاس میں 180 وائس چانسلروں نے شرکت کی جن میں سے178 نے مذکورہ اصلاحات کو مسترد کیا اور اُن کا مؤقف تھا کہ مذکورہ اصلاحات نے ڈھائی سال جیسے طویل عرصے کے دوران اعلیٰ تعلیم کے نظم و نسق کو نقصان پہنچایا ہے اور یہ نقصان اِس قدر شدید ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جو کامیابیاں پندرہ برس کے اندر حاصل کی تھیں وہ سب کی سب رائیگاں چلی گئی ہیں۔ ڈاکٹر بنوری کی اصلاحات میں شامل تھا کہ پاکستان میں تعلیمی بندوبست (سائیکل آف ایجوکیشن) جو کہ بیچلرز‘ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے درجات پر مشتمل ہے اور اِس تعلیمی درجہ بندی پر بہت سے ممالک میں عمل درآمد ہو رہا ہے اور یہ 29 یورپی ممالک میں سال 1999ء سے جاری ہے۔ اِس تعلیمی بندوبست (فریم ورک) کے ذریعے نہ صرف طلبہ کی ذہانت و اہلیت کی جانچ ممکن ہوتی ہے بلکہ اُن کے تعلیم اور تعلیمی و پیشہ ورانہ مستقبل کا رخ بھی اِسی فریم ورک کے ذریعے باآسانی متعین ہو سکتا ہے۔ ہم سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جب کوئی طالب علم کالج سے فارغ التحصیل ہوتا ہے تو اُس کی ذہنی سطح اور تعلیم کا معیار کیا ہوتا ہے اور اگر ایسا طالب علم براہ راست ڈاکٹریٹ (PhD) حاصل کرنے کی قطار میں لگ جائے تو یہ بات منطقی نہیں لگتی۔ اگر مذکورہ اصلاحات نفاذ العمل ہو جاتیں تو یقینی امر تھا کہ اِن کے باقی رہنے کی وجہ سے پاکستان کو حاصل پی ایچ ڈی کا عالمی تشخص ہی ختم ہو جاتا۔ یہی وجہ تھی بھوربن میں ہوئے اجلاس کے دوران وائس چانسلروں کی اکثریت نے اِس قسم کے نظام تعلیم اور تعلیمی بندوبست کا مسترد کیا۔وائس چانسلروں کی جانب سے جو مشترک شکایت سامنے آئی وہ یہ تھی مذکورہ اصلاحات متعارف کرانے سے قبل سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی اور اصولاً یہ ہونا چاہئے تھا کہ وائس چانسلر کی کمیٹی میں اِنہیں پیش کیا جاتا جہاں اِس کے جملہ پہلوؤں پر بحث و غور ہونے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جاتا لیکن مشاورت کو ضروری نہیں سمجھا گیا مثال کے طور پر پاکستان انجینئرنگ کونسل‘ نیشنل بزنس ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل اورپاکستان میڈیکل کمیشن و دیگر کا نکتہئ نظر اِس سلسلے میں شامل حال ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ قابل ذکر اور قابل غور ہے کہ نجی جامعات کی نمائندہ تنظیم ’ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان‘ نے بھی مذکورہ اصلاحات کو مسترد کیا ہے۔ مذکورہ اصلاحات کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ اِس میں تحقیق کرنے کیلئے فراہم کی جانے والی امداد (گرانٹ) جو نوجوان اساتذہ کیلئے تھی اُسے ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ کی جانب سے تقریباً ختم ہی کر دیا گیا اور یہ اقدام اُن فیکلٹی ممبرز کی حوصلہ شکنی کا باعث بنا جو اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنا چاہتے تھے۔ ذہن نشین رہے کہ ’نیشنل ریسرچ پروگرام فار یونیورسٹیز (NRPU)‘ کے نام سے حکمت عملی بارہ سو سے پندرہ سو فیکلٹی ممبرز کیلئے وضع کی گئی جو ملک میں تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں اپنی تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہتے ہوں۔ وزیراعظم پاکستان کی زیرصدارت ملک میں اعلیٰ تعلیم بالخصوص سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعلیم کو آگے بڑھانے کیلئے ’نالج اکنامی ٹاسک فورس‘ تشکیل دی گئی ہے جس کا راقم الحروف سربراہ (چیئرمین) ہے۔ اِس حکمت عملی کے تحت جو منصوبے بنائے گئے ہیں وہ پاکستان اور بیرون ملک متعلقہ شعبے کے پاکستانی ماہرین کی مشاورت سے تیار کئے گئے ہیں۔ یہ منصوبے کس قدر اہم ہیں‘ اِس بات کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کہ جہاں قریب دو سال قبل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کیلئے سالانہ 0.8 ارب روپے مختص کئے جاتے تھے اب 100 ارب روپے کے منصوبے زیرغور ہیں جنہیں سائنس کی تعلیم دینے والے اداروں کے ذریعے فراہم کیا جائے گا اُور یقینی امر ہے کہ ایک سو ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے سے پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں اُبھر کر سامنے آئے گا۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا کی اقتصادیات سائنس و ٹیکنالوجی پر منحصر ہے اور وہی قومیں مستقبل میں بڑا کردار ادا کرنے کی اہل ہوں گی جو سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں میں بروقت اضافہ کرنے میں سرمایہ کاری کو ضروری سمجھتی ہیں۔ (مضمون نگار سابق وزیر‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی چیئرمین اور وزیراعظم کی نیشنل ٹاسک فورس آن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سربراہ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عطا الرحمن۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)