ڈی این اے، ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ کا مخفف ہے،جوکسی بھی انسان کا وہ مخصوص جینیاتی کوڈ ہے، جس میں انسان کے بارے میں بنیادی معلومات ہوتی ہیں مثلاً اس کی جنس، بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ اور جسمانی ساخت وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس انسان کو کون کون سی بیماریاں لاحق ہونے کا امکان ہے، یہ بھی اس کے ڈی این اے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
انسانی جسم کی اکائی خلیہ ہوتی ہے۔ اس خلیے کے درمیان میں مرکزہ یا نیوکلئیس ہوتا ہے جس کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے تمام خلیوں میں ایک جیسا ہی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔
قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے یکسر مختلف ہے۔
ہر انسان اپنے ڈی این اے کا نصف حصہ اپنی والدہ اور بقیہ اپنے والد سے وصول کرتا ہے۔ ان دونوں ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے۔
جس شخص کا بھی ڈی این اے کا ٹیسٹ مقصود ہو اس کا بال،خون، ہڈی اور گوشت یا ان میں سے کسی ایک چیز کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے انسانی خلیے میں سے ڈی این اے الگ کیا جاتا ہے اور پھر پولیمیریز چین ری ایکشن نامی طریقے کی مدد سے اس ڈی این اے کی کثیر نقول بنا لی جاتی ہیں۔
ان نقول کی مدد سے ڈی این اے کی جانچ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ ڈی این اے کو جانچنے کے بعد ڈی این اے فنگر پرنٹ بنایا جاتا ہے۔ حادثات کی صورت میں جب لاش کی شناخت بالکل نا ممکن ہو تب ڈی این کے ذریعے ہی شناخت عمل میں لائی جاتی ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جانچا جاتا ہے کہ اس لاش کا ڈی این اے کس خاندان سے مل رہا ہے۔ ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کو تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں۔ اسی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعویٰ دار لواحقین کے نمونوں سے ملائے جاتے ہیں۔ اگر جینیٹک کوڈ ایک جیسے ہوں تو خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہے اور لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ اگر درست طریقے سے انجام دیا جائے تو اس کے بعد ابہام کی گنجائش نہیں ہوتی اور اسے حتمی سمجھا جاتا ہے۔
اگر یہ جاننا ہو کہ کسی انسان کے حقیقی والدین کون ہیں تو اس انسان کا ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے میں میچ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دونوں کے ڈی این اے میں مماثلت ہو تو ولدیت کا دعویٰ درست قرار پاتا ہے۔ یہ مماثلت 50% ڈی این اے میچ کرنے پہ ہی ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اگر جائے وقوع سے مجرم کا بائیولوجیکل نمونہ ملے تو اس کا ڈی این اے حاصل کر کے مکمل رپورٹ مرتب کر لی جاتی ہے۔ اس ڈی این اے کو اس خاص کیس میں نامزد ملزمان کے ڈی این اے سے میچ کر کے مجرم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹ کو دنیا میں پہلی مرتبہ پروفیسر جیفریز نے 1986 میں ایک جرم کی تحقیقات کے دوران استعمال کیا تھا۔ڈی این اے ٹیسٹ ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے، جس کے لیے کسی بھی شخص کے نمونے لے کر انہیں فرانزک لیبارٹری بھیجا جاتا ہے، جہاں انہیں جینیاتی مشاہدے کے لیے استعمال ہونے والی مختلف مشینوں سے گزار کر نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، جسے ڈی این اے پروفائل کہا جاتا ہے۔
بشکریہ آنلائن آرٹیکلز