عدم ِاعتماد کی سیاست

پاکستانی سیاست میں زبردست ہلچل دیدنی ہے۔ حزبِ اختلاف نے وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ متحدہ حزب اختلاف نے قومی اسمبلی اراکین کی اتنی حمایت حاصل کر لی جو موجودہ حکومت کو ختم کر سکے۔ یقینی طور پر یہ قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا ہے اور اس وقت ملک کے سیاسی حالات کسی بھی طرح تحریک کے حق میں نہیں تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی منتخب حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بہرحال کھیل شروع ہوچکا ہے اور طرفین سیاسی بھاؤ تاؤ شروع کرچکے ہیں۔ بہرحال ابھی ووٹنگ سے پہلے تقریباً دو ہفتوں کا انتظار باقی ہے۔ پاکستانی سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اسی وجہ سے اس وقت کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین  کے متحد ہوجانے کے بعد گزشتہ کچھ ماہ کے دوران ملک کے سیاسی منظرنامے میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔ انتظامیہ پر دباؤ بڑھانے کے لئے حزبِ اختلاف نے عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل اسلام آباد کی جانب مارچ کا فیصلہ کیا جس سے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھ چکا ہے۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے خلاف سامنے آنے والے حالیہ اتحاد نے ایک ایسے گروہ سے پردہ اٹھایا ہے جو مرکز میں بھی تحریک انصاف حکومت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ایک جانب حزبِ اختلاف کی جماعتیں بڑی لڑائی کے لئے تیاری کررہی ہیں تو دوسری جانب وزیرِاعظم بھی آخری دم تک لڑنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں، گزشتہ ہفتے جنوبی پنجاب میں ایک عوامی اجتماع میں خطاب کے دوران وزیرِاعظم کے حملے صرف حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں پر نہیں تھے بلکہ انہوں نے عوام میں کھڑے ہوکر مغربی ممالک پر بھی سخت تنقید کی اور ان کے دوہرے معیار کو بُرا بھلا کہا۔ بلاشبہ یہ پی ٹی آئی حکومت کے سامنے آنے والا اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ درحقیقت حزبِ اختلاف کے اتحاد کے بجائے یہ پارٹی میں ہونے والی اندرونی بغاوت ہے جو پی ٹی آئی کے لئے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ لگ رہا ہے کہ وزیرِاعظم اس بغاوت کو روکنے کے لئے اپنے چنیدہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کے لئے تیار ہیں۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ نئے امیدوار پر اتفاق موجود نہیں ہو رہا۔ مسلم لیگ (قائد اعظم) وزیرِ اعلیٰ کے طور پر پرویز الہٰی کے علاوہ کسی اور کو قبول نہیں کرے گی۔ عدم اعتماد کی تلوار دیکھ کر مسلم لیگ (ق) نے بھی اپنے مطالبات میں اضافہ کردیا ہے۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے پرویز الہٰی کو پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ کی پیشکش کی خبروں کے بعد سے مسلم لیگ (قائداعظم) کی حیثیت مزید مستحکم ہوچکی ہے۔پنجاب میں تحریک کے پاس معمولی اکثریت ہے اور مسلم لیگ (قائداعظم) اگر اپنی حمایت ختم کردے تو پنجاب میں تحریک کی حکومت کا گرنا طے ہوجائے گا‘ یوں ملک کی تمام تر سیاست ہی بدل جائے گی۔ وزیرِاعظم کے لئے پنجاب میں حکومت سے متعلق بحران کو حل کئے بغیر تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ حزبِ اختلاف کا دعویٰ ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (نواز) کی جانب سے ٹکٹ دیئے جانے کے وعدے پر تحریک کے کئی اراکین قومی اسمبلی میں ان کا ساتھ دینے کے لئے راضی ہیں تاہم اپوزیشن اتحاد کے لئے تحریک کے منحرف اراکین کی وفاداری خریدنا اتنا آسان بھی نہیں ہوگا جس قدر کہا جا رہا ہے۔ یہ طاقت کا ایسا مضحکہ خیز کھیل ہے کہ جس میں اراکین سب سے اچھی پیشکش کا ساتھ دیتے ہیں۔یقینا عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ ہی ملکی سیاست کے مستقبل کا تعین کرے گا۔۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)