ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) ٹینور ٹریک سسٹم (TTS) کے تحت پروموشن لاگو کرنا چاہتی ہے اِس حکمت عملی کا خلاصہ ایک جملے میں اگر کیا جائے تو تحقیقی مقالے کسی بین الاقوامی معروف جریدے میں شائع ہونے چاہئیں۔ اِس مقصد کے لئے جرائد کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں کی طرف سے ارسال کی جانے والی اشاعتوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے تاہم اِس سے پاکستانی ڈگریوں کی ساکھ میں اضافہ نہیں ہوا جو برعکس حقیقت ہے۔ عالمی سطح پر چند پاکستانی یونیورسٹیوں کے پروگراموں کو تحقیقی فہرست سے ہٹا دیا گیا ہے۔ مقامی ہائی ایڈ لینڈ سکیپ کے کئی طویل مدتی مبصرین اِس بارے مزید خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں‘ راقم الحروف کے خیال میں اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک مستحکم‘ غیرلچکدار معیار جو دیگر تمام تحقیقات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے۔ اِس طرح کے مسائل صرف پاکستان کو درپیش نہیں بلکہ کئی عالمی یونیورسٹیوں نے اِس قسم کی مثالوں سے نمٹنے کے لئے بہتر حل تیار کئے ہیں جو کہ پاکستان میں اصلاحات کے لئے رہنما نمونے کے طور پر بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر‘ برمنگھم یونیورسٹی کا بی اے سی ایف پانچ الگ الگ شعبوں کا جائزہ لیتا ہے: تحقیق‘ تعلیم‘ انٹرپرائز‘ مصروفیت تاثیر‘ قیادت و انتظام اور شہریت۔ عام طور پر‘ مغرب کی یونیورسٹیاں کچھ تغیرات کے ساتھ تحقیق و تدریس اور خدمات میں فیکلٹی ممبران کی شراکت کا جائزہ لیتی ہیں۔ فیکلٹی ممبران کا تقرر تین مختلف ٹریکس میں سے کسی ایک پر کیا جاتا ہے۔ تعلیم (بہت کم یا بغیر تحقیق کے پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنا)۔ تحقیق و تعلیم (تعلیم پر مشترکہ توجہ لیکن عام طور پر زیادہ تر تحقیق) یا انٹرپرائز‘ انگیجمنٹ اور امپیکٹ بیرونی شراکت داروں‘ انٹرپرائزز اور کمیونٹی کے ساتھ اثر انگیز مصروفیت پر توجہ مرکوز کرنا)۔ اِس سلسلے میں ہر ٹریک مختلف وزن رکھتا ہے اور کیریئر کی ترقی کے لئے اوپر دیئے گئے پانچ تعاون کے شعبوں میں سے ہر ایک میں مختلف و کم از کم کامیابی کی سطحوں کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ پہلے سے ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سسٹم کی طرف سے اٹھائے گئے نقطہ نظر سے الگ ہیں۔
یونیورسٹی آف برمنگھم کا نقطہ نظر ایچ ای سی کے ٹینور ٹریک سسٹم کے بالکل برعکس ہے‘ جو شائع شدہ جرنل پیپرز اور پیٹنٹس کے علاوہ کسی اور چیز کو تسلیم نہیں کرتا جو کوالٹی کنٹرول کے نکتہئ نظر سے اہم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں میں انڈر گریجویٹز کی تعلیم کے معیار میں بہتری نہیں آئی اور نہ ہی ان کی ملازمت اور ملازمتوں میں بہتری آئی ہے؟ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم میں ٹینورٹریک سسٹم جیسی اصلاح شروع سے ہی خراب ڈیزائن کی گئی اور دو دہائیوں میں جب سے اسے متعارف کرایا گیا ہے اس کا ارتقا نہیں ہوا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا بھر کی ممتاز یونیورسٹیوں میں تعلیم کے فروغ کے معیار نے کئی دہائیوں سے معیار اور اثر انگیز کام کے مجموعے یا اشتراک کی کوشش کی ہے اور اِس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ تعلیم و تحقیق کا معیار بھی ہونا چاہئے۔
برمنگھم یونیورسٹی کا نیا ’بی اے سی ایف‘ فروغ تعلیم و تحقیق کے عمل کو نمایاں طور پر واضح کرتا ہے اور ایک ایسے ادارے میں کیریئر کی ترقی کے لئے توقعات کا اظہار بھی ہے جو مقدار سے زیادہ معیار کو اہمیت دیتا ہے۔ چند سال پہلے ’ایچ ای سی‘ نے ’ٹی ٹی ایس‘ کی اصلاح کے لئے ایک تجویز تیار کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا خاطرخواہ نتیجہ نہ نکلا۔ اب برمنگھم یونیورسٹی کے ’بی اے سی ایف‘ کے ساتھ ایک ماڈل متعارف کرایا ہے جس کی تیاری میں غوروخوض (بڑی محنت) سے کام لیا گیا ہے اور یہ ماڈل بتاتا ہے کہ فیکلٹی ممبران کے تحقیقی کام کی اہمیت کس طرح معلوم کی جائے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیاں اپنے فیکلٹی ممبران سے بھی یہی مطالبہ کریں اور انہیں تدریس و تحقیق کے معیار کی جانب راغب کریں اور اِس کے سماج پر اثرات کا اندازہ کیا جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عثمان الیاس۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)