آبی جنگ اور ہتھیار 

چین سے تعلق رکھنے والے معروف فوجی جرنیل سین‘ جنہیں ماسٹر سین اور جنرل سین (Sun Tzu) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کا معروف قول ہے کہ ”جنگ کا سب سے بڑا فن بغیر لڑے دشمن کو زیر کرنا ہوتا ہے“ اگرچہ سندھ طاس معاہدہ (آئی ڈبلیو ٹی) پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی جنگوں اور متعدد تنازعات سے بچاؤ کا باعث ہے تاہم بھارت کے جارحانہ رویئے کی وجہ سے کشیدگی اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ’آبی جنگ‘ شروع کے امکانات بڑھ گئے ہیں جو دو جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ یہ آبی جنگ دو محاذوں پر ہو رہی ہے۔ ایک جہلم اور چناب پر کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں کے غیر قانونی ڈیزائن پر ہیگ کی ثالثی عدالت میں اور دوسرا بین الاقوامی قانون کے دائرے میں‘ جہاں بھارت نے ایک اور اشتعال انگیز قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان کو ایک بار پھر نوٹس بھیجا ہے جس میں چھ سال پرانے ’آئی ڈبلیو ٹی‘ میں ترمیم کی دھمکی دی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں بالائی بھارت‘ پاکستان میں تمام پانچ دریاؤں کے بہاؤ کو کنٹرول کرتا ہے اور بھارت نے پاکستان کا پانی روک رکھا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کس طرح نہرو نے ایڈوینا کے ساتھ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا اور ریڈکلف کو مجبور کیا کہ وہ مدھوپور اور فیروز پور ہیڈ ورکس بھارت کو دے کر پنجاب کی اصل سرحدی لائن کو دوبارہ ترتیب دے اور پھر فوری طور پر ہزاروں پاکستانی ایکڑ زمین کو بنجر کچرے میں تبدیل کرنے والی تمام نہروں کو بند کر دے۔ بھارت نے ہمیشہ پانی کو جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے پاکستان کی خودمختاری کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ شیوسینا کے ایک رہنما نے حال ہی میں کہا کہ ”بھارت نے پاکستان کے لئے جو منصوبے بنائے ہیں اُس کی وجہ سے پاکستان  جو صدیوں پہلے کربلا میں ہوا تھا‘ وہ بھول جائے گا۔‘ مودی کی جانب سے بھی اسی طرح کی دھمکیاں دہرائی گئی ہیں کہ ”اب اس پانی کا ایک ایک قطرہ بند کر دیا جائے گا اور (بھارت کے) پانی کو پاکستان جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔“
پاکستان کو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے اور ماہرین نے پیش گوئی کر رکھی ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو سال 2025ء تک بیشتر قابل کاشت اراضی خشک ہو جائے گا۔ اگر ثالثی کا کوئی منفی اثر پڑتا ہے اور بھارت کا خطرہ پورا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے لئے سب سے بڑی تباہی ہوگی کیونکہ پاکستان کو قحط کا سامنا کرنا پڑے گا اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کھانے پینے کا بندوبست نہیں کیا جا سکے گا اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ’آئی ڈبلیو ٹی‘ ایک مخلوط بندوبست تھا لیکن یہ دونوں ممالک کے لئے ضرورت کی وجہ سے بنایا گیا اور یہ جدید سفارت کاری کی بھی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے۔دوسری طرف ہم ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے پیچھے رہے بھارت نے اس ناکامی کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا تاکہ ’ٹریٹی ٹو‘ کے خیال کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ان کی دلیل ہے کہ پانی ایک عالمی اثاثہ ہے جبکہ پاکستان اسے ضائع کر رہا ہے اور بھارت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بالائی سندھ‘ جہلم اور چناب پر پانی روکنے کا حق رکھتا ہے۔  میں دعا کرتا ہوں کہ بھارت کے اس تازہ ترین حملے کے بعد اس طرح کی لاپرواہی کی مزید گنجائش باقی نہ رہے۔ پاکستان کو یہ آبی جنگ جیتنی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس حملے سے کیسے نمٹا جائے؟ قومی فیصلوں میں کبھی بھی دیر نہیں ہوتی اور پاکستان پر مسلط کی جانے والی لاقانونیت کا مقابلہ کئی محاذوں پر کیا جانا چاہئے۔ اس ثالثی کا فیصلہ بنیادی طور پر تکنیکی بنیادوں پر کیا جائے جیسا کہ ہم نے ماضی میں معاہدے کے تحت ہونے والی ثالثی میں دیکھا لہٰذا سب سے پہلے پاکستان کو چاہئے کہ وہ دنیا میں دستیاب متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی بہترین تکنیکی اور قانونی ٹیم کو اکٹھا کرے تاکہ ضرورت کی اس گھڑی میں ہماری قوم کی نمائندگی کی جا سکے۔ جہاں تک پاکستان کی موجودہ نمائندگی ہے تو اِس میں ماہرین کا اضافہ ہونا چاہئے۔ پاکستان کے سامنے ریکوڈک کا نتیجہ بھی پڑا ہے جس سے بھاری نقصان ہوا‘ اِس لئے صورتحال کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات ہونے چاہیئں۔ صورتحال کے بارے میں قانونی مؤقف یہ ہے کہ معاہدہ مقدس ہے اور اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘ اور یہ کہ پاکستان کا پانی کا حق بنیادی انسانی حق ہے۔ قانون کے مطابق بھارت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی دھمکی پاکستان کے قدرتی وسائل سے محروم کرنے کا غیر منصفانہ طریقہ ہے لیکن آج کی دنیا میں پاکستان کی طرف سے قانون کا حوالہ دینا کافی نہیں ہے۔ تکنیکی اور قانونی حکمت عملی کو سیاسی حکمت عملی اور سفارتی رسائی کے ساتھ ہم آہنگ اور ہم آہنگ کرتے ہوئے پاکستان کو بین الاقوامی برادری‘ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان شروع سے ہی ”آئی ڈبلیو ٹی“ پر من و عن عمل درآمد کر رہا ہے اور بھارت کو تفویض کردہ دریاؤں پر زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے کی اجازت دی گئی ہے یہاں تک کہ اِس کی وجہ سے پاکستان میں یہ دریا عملی طور پر خشک ہو چکے ہیں۔ عالمی برادری کو بتایا جانا چاہئے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کئے آبی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور ’رن آف دی ریور‘ منصوبوں کے بہانے پاکستان کو تفویض کئے گئے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کئے ہیں لیکن ناانصافی کی درخواستیں اور تاریخی دلائل ایسی دنیا میں شاذ و نادر ہی مددگار ثابت ہوتے ہیں جہاں ممالک صرف اپنے مفاد کو دیکھ رہے ہوں اور ایسی صورت میں صرف سنگین نتائج کی دھمکی ہی کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے لہٰذا عالمی برادری اور بھارت کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر پاکستان کی تیئس کروڑ آبادی کو قحط کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان بھارت کی جارحیت کو جنگی کاروائی (خود پر حملہ) تصور کرے گا جس سے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے لئے سلامتی کے شدید خدشات پیدا ہوں گے۔ (مضمون نگار سپریم کورٹ کے وکیل‘ موجودہ سینیٹر اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سیّد ظفر علی شاہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)