سنیچر کی شام پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پسنی سے کچھ دور ساحل پر ایک مردہ وہیل ملی اور رواں برس یہ اپنی نوعیت کا دوسرا ایسا واقعہ ہے۔
یہ معاملہ اس وقت زیادہ پیچیدہ ہوا جب اگلے دن روشنی ہونے پر علم ہوا کہ رات کی تاریکی میں نامعلوم افراد نے اس وہیل کا پیٹ چاک کیا تھا۔
حکام کے مطابق بظاہر یہ عمل کرنے والے افراد ایک ایسے مخصوص مادے کی تلاش میں تھے، جو مارکیٹ میں کروڑوں روپے کے عوض بکتا ہے۔
میرین بائیالوجسٹ اسد اللہ غالب نے میڈیا کو بتایا کہ یہ وہیل پسنی شہر سے اندازا 50 کلومیٹر دور شمال بندن کے علاقے سے مردہ حالت میں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی لمبائی 43 فٹ ہے اور اس کا تعلق برائیڈز وہیل کی نسل سے ہے جس کا شمار مقامی وہیلز میں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت یہ وہیل مردہ حالت میں نمودار ہوئی تو اس وقت صحیح اور سالم حالت میں تھی لیکن رات کو نامعلوم افراد نے اس کا پیٹ چاک کیا۔
اسد اللہ غالب نے بتایا کہ جب یہ وہیل پہلے نمودار ہوئی تو اس کا جسم ساحل پر پانی کے اندر ہی تھا لیکن رات میں سمندر کی لہروں نے اسے ساحل پر دھکیل دیا جہاں رات کے کسی پہر لوگوں نے اس کے جسم کو کاٹ ڈالا۔
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ روز دن کو سمندرمیں ہونے کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس وہیل کے جسم پر کوئی زخم تھا یا نہیں جس سے اس کی ہلاکت کی وجوہات کا تعین کیا جا سکتا اور اب اس کے جسم کو کاٹنے کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا اور بھی مشکل ہے۔
میرین بائیالوجسٹ سدھیر بلوچ نے بتایا کہ وہیل کی ایک مخصوص قسم کے پیٹ میں ایک مادہ ہوتا ہے جو بہت مہنگا بکتا ہے۔ اس کو نکالنے کے لیے وہیل کے پیٹ کو چاک کیا گیا لیکن وہ مادہ برائیڈز وہیل میں نہیں ہوتا۔
سدھیر بلوچ نے بتایا کہ نامعلوم افراد نے مشین سے وہیل کے سر، پیٹ اوردم کو اس مقصد سے کاٹا کہ اس کے پیٹ سے عنبرگریس نامی مادہ نکالا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ عنبرگریس سپرم وہیل میں پایا جاتا ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے برائیدز وہیل کے جسم کو کاٹ کر اس کے ڈھانچے کو بھی ناکارہ بنا دیا گیا۔
ان کے مطابق ورنہ یہ ڈھانچہ میوزیم میں رکھا جا سکتا تھا یا کسی تعلیمی ادارے میں ریسرچ کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
سدھیر بلوچ نے بتایا کہ عنبرگریس ایک نایاب مادہ ہوتا ہے جو ادویات، کھانے کے فلیورز اور پرفیومز میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کروڑوں روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سکویڈ سپرم وہیل کی خاص خوراک ہوتی ہے جس کی چونچ بہت سخت ہوتی ہے اور اسے ہضم کرنے کے لیے وہیل کے جسم میں ایک مادہ پیدا ہوتا ہے۔
اس مادے کے باوجود سکویڈ کی چونچ ہضم نہیں ہوتی اور مادہ مچھلی کی قے میں باہر آ جاتا ہے اور اسی مادے کو عنبرگریس کہا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ عنبرگریس کا کچھ حصہ سپرم وہیل کے جسم بھی رہ جاتا ہے جس کو پانے اور اس کے ذریعے کروڑوں روپے کمانے کے لیے اس کے پیٹ کو چاک کیا جاتا ہے۔
سدھیر بلوچ نے بتایا کہ رواں سال بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے مردہ حالت میں ملنے والی یہ دوسری وہیل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال مئی کے مہینے میں ضلع گوادر میں جیونی کے علاقے بندری سے ایک بلیو وہیل مردہ حالت میں ملی تھی جس کی لمبائی 36 فٹ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بندری میں مردہ حالت میں ملنے والی وہیل کو بھی کاٹنے کی کوششں کی گئی تھی لیکن مقامی انتظامیہ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تاہم انھوں نے بتایا سنہ 2019 میں جیونی کے علاقے گنز میں جو وہیل مردہ حالت میں ملی تھی اس کے جسم کو بھی عنبرگریس کے لیے کاٹا گیا تھا۔
اسداللہ غالب نے بتایا کہ برائیڈز وہیل ہمارے خطے کے سمندر کی مقامی وہیلز ہیں جو فیڈنگ کے لیے ساحل کا رخ کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برائیڈز سمیت وہیل اور دیگر بڑی مچھلیوں کی غیرفطری ہلاکتوں کی دو بڑی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ کسی بحری جہاز سے ٹکرا کر زخمی ہونا اور دوسری بڑی وجہ ریشمی جالوں میں پھنسنے کے باعث زخمی ہونا ہے۔
سدھیر بلوچ نے بتایا کہ رواں برس مئی میں جو وہیل مردہ حالت میں ملی تھی اس کی دم پر کٹ تھا جو کسی جہاز سے ٹکرانے کے باعث لگا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ وہیل کو زیادہ تر بڑی لانچوں کے بڑے جالوں میں پھنسنے، بڑے جہازوں سے ٹکرانے یا موسمی تبدیلیوں کے وجہ سے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کا سمندر مچھلیوں کے حوالے سے آباد ہے اور یہاں بڑی مچھلیوں (Cetacean) کو سب سے زیادہ خطرہ ماہی گیروں کی لانچوں میں استعمال ہونے والے بڑے جالوں سے ہے۔
ان کے مطابق ان میں گھوسٹ نیٹ یعنی وہ جال شامل ہیں جن کو ناقابل استعمال ہونے کی وجہ سے ماہی گیر سمندرمیں جان بوجھ کر پھینک دیتے ہیں یا سمندری پتھروں یا مرجان میں پھنسنے کی وجہ سے ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض نایاب قسم کے کچھوں کی ہلاکت بھی ان ہی جالوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بڑی مچھلیوں کو ان جالوں کی وجہ سے ہلاکتوں سے بچانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ماہی گیروں میں شعور اورآگاہی پیدا کیا جائے وہ اپنے ناقابل استعمال جالوں کو سمندرمیں نہ پھینکیں بلکہ ان کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔