اکثر آپ نے فلموں اور کارٹونز میں دکھائی جانے والی چڑیلوں یا جادوگرنیوں کی ناک پر مسے دیکھے ہوں گے، لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ان کی ناک پر مسے کیوں دکھائے جاتے ہیں اور انہیں خصوصاً ناک پر کیوں بنایا جاتا ہے؟
دراصل یہ روایت صدیوں پرانی توہمات سے جڑی ہے، 15ویں صدی میں یورپ میں کچھ خواتین کو چڑیل یا جادوگرنیاں قرار دے کر کا قتل عام شروع کیا گیا، کیونکہ عیسائی نظریے میں جادو ٹونے کو غیر مذہبی عمل، بدعت اور شیطان سے قریبی تعلق قرار دیا گیا تھا۔
سالم وچ ٹرائلز کے ساتھ ہی میساچوسٹس، اسکاٹ لینڈ، یورپ اور انگلینڈ میں خواتین کے خلاف ظلم و ستم اس قدر بڑھ گیا کہ انہیں چڑیل یا جادو گرنی قرار دے کر قتل کرنا انتہائی آسان ہوگیا۔
جادو گروں یا جادوگرنیوں کا شکار کرنے والے لوگ بقیہ آبادی سے مبینہ طور پر اس طرح کے عمل میں ملوث لوگوں کو تشخیص کیلئے ”جادوگرنیوں کا نشان“ جسے “ شیطان کا نشان“ بھی کہا جاتا ہے، اسے دیکھ کر پہچانتے، کیونکہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان لوگوں کو شیطان نے خود نشان زد کیا ہے۔
اگر کسی پر جادو ٹونے کا الزام لگایا جاتا تو تو برہنہ کرکے جلد کی خامیوں کو تلاش کیا جاتا۔ اگر اس طرح کا کوئی نشان مل جاتا تو الزام لگانے والے اسے شیطان کے کام کے ”ثبوت“ کے طور پر استعمال کرتے۔اور اس بدقسمت شخص یا خاتون کو مجرم قرار دے دیا جاتا۔
تاہم، خوش قسمتی سے، 17 ویں صدی اپنے ساتھ روشن خیالی، عقل، علم، اور انسان دوستی کا دور لائی۔ جس میں جادوگرنی کے شکار کا خاتمہ ہوا اور پچھلی صدیوں کے توہمات کو ختم کرنے میں مدد ملی۔ اس دوران یہ طے پایا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان نام نہاد چڑیلوں، مسوں اور اس سے جڑی سبھی چیزوں نے کسی کو کوئی نقصان پہنچایا ہو۔
لیکن صدیوں بعد، اب بھی چڑیلوں کی بہت سی تصویروں میں مسوں کو دکھایا جاتا ہے۔
لیکن وقت بدل رہا ہے، آپ پاپ کلچر میں حالیہ جادوگرنیوں کو دیکھیں تو ہیری پوٹر فرنچائز سے ہرمائینی گرینجر، مارول کی وانڈا میکسموف، اور سبرینا دی ٹین ایج وِچ کو مثبت طریقے سے پیش کیا گیا ہے اور انہیں بدنام زمانہ مسوں سے پاک دکھایا گیا ہے۔