قابل توجہ شعبہ نظر انداز کیوں؟

وفاقی حکومت نے درپیش صورتحال کے تناظر میں چینی برآمد کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے‘ چینی ایکسپورٹ ہونے کی صورت میں مقامی منڈی میں قیمتیں بڑھنے کا خدشہ موجود تھا‘ اس کے ساتھ وزارت خوراک کاکہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے چینی برآمد ہونے کی صورت میں قیمتیں نہ بڑھنے کی یقین دہانی کرائی بھی ہے‘ دوسری جانب خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں گندم کے حوالے سے مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ بلاضرورت وافر مقدار میں گندم درآمد کرنے کا آرڈر دیا گیا خبرایجنسی نے  نجی ٹی وی کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ غلط فیصلوں کے نتیجے میں قومی خزانے کو ڈیڑھ ارب ڈالر تک کا نقصان ہوا‘ وزارت پیداوار کا کہنا ہے کہ گندم کے پہلے کوٹے میں تاخیر کے باعث10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا اور مجموعی طور پر30 لاکھ ٹن گندم امپورٹ ہوئی جبکہ پہلے مرحلہ میں 20 لاکھ ٹن کا آرڈر تھا‘ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آبادی کے ایک بڑے حصے کا انحصار زراعت کے شعبے پر ہے‘ وطن عزیز کے نہری نظام کو بھی مثالی قرار دیا جاتا ہے اس صورتحال میں تو چاہئے یہ کہ پاکستان سے زرعی اجناس کی ایکسپورٹ بڑھے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بھی ہو اور تجارتی توازن بھی یقینی ہو جائے اس کے برعکس پاکستان زرعی اجناس کی درآمد پر بھاری رقم خرچ کرتا ہے ایک ایسے وقت میں جب ملک کو اقتصادی شعبے میں مشکلات کا سامنا ہے زراعت کا سیکٹر اس صورتحال سے ملک کو نکالنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے اس سیکٹر میں ضرورت وسیع بنجر اراضی سیراب کرنے کی بھی ہے جس کیلئے آبی ذخائر ناگزیر ہیں اراضی سیراب کرنے کیلئے سولر انرجی سے ٹیوب ویل بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں‘ قابل اطمینان ہے کہ ملک میں حالیہ سیزن کے دوران گندم کی پیداوار میں 5.4 فیصد اضافہ ریکارڈ ہواہے‘ قابل اطمینان یہ بھی ہے کہ ملک میں زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے حکمت عملی کی ضرورت کا احساس بھی کیا جا رہا ہے اس حوالے سے گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مشاورت بھی ہوئی ہے اس میں گندم کی پیداوار کا تخمینہ بھی لگایا گیا ہے ایک ایسے وقت میں جب ملک کی اکانومی قرضوں پر چل رہی ہے اور ایک قرضہ کے بعد دوسرا قرضہ اٹھایا جانا معمول بن چکا ہے ضرورت درآمدات پر سے انحصار کم کرنے اور برآمدات میں اضافے کی ہے تاہم یہ کسی ایک اجلاس اور دوچار بیانات سے حاصل ہونے والا ہدف نہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ کنکریٹ ہمہ جہت پالیسی ترتیب دی جائے کہ جس میں پیداواری لاگت کا حجم بھی کم سے کم ہو‘ تاکہ ملک کے اندر بھی قیمتیں مستحکم رہیں اور عالمی مارکیٹ میں بھی مسابقت آسان ہو سکے۔