موت کا پھندا

وزیراعظم شہبازشریف قرضوں کے جال کو موت کا پھندا قرار دیتے ہیں‘ وزیراعظم درپیش صورتحال سے نکلنے کیلئے وسیع پیمانے پر اصلاحات سے متعلق آگاہ کرنے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مہنگائی پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے‘روس یوکرائن کی جنگ کے نتیجے میں بعض اشیاء کے نرخوں میں اضافے کا ذکر کرنے کیساتھ شہبازشریف یہ بھی کہتے ہیں کہ سیلابوں سے پاکستان کی معیشت کو30ارب ڈالر کا نقصان ہوا اس سارے منظرنامے میں وزیراعظم معاشی انقلاب کو ناگزیر بھی گردانتے ہیں‘ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس سے خطاب میں شہبازشریف موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی تفصیلات بھی بتا رہے ہیں‘ شہبازشریف کا کہناہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے کہ جن کا موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کردار نہیں‘ اس کے باوجود پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات برسرزمین حقیقت ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا‘ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم شہبازشریف قرضوں کے جال کو موت کا پھندا قرار دے رہے تھے‘ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ جاری قرض پروگرام کی آخری قسط کے1.1 ارب ڈالر منظور ہونے جارہے تھے‘ اس کے بعد ایک اور قرض پروگرام کیلئے بات چیت کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے‘ ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے جبکہ اندرونی اور گردشی قرضوں کا حجم بھی قابل تشویش ہے‘وزیراعظم خود مہنگائی کو بڑا مسئلہ قرار دے رہے ہیں‘ اسی روز جب وزیراعظم عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کر رہے تھے ملک میں سٹیٹ بینک نے شرح سود22 فیصد پر ہی برقرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے‘اگلے دو ماہ کیلئے جاری ہونے والی زری پالیسی میں شرح سود کو مسلسل ساتویں بار برقرار رکھنے کی وجہ مہنگائی پر کنٹرول بتائی جارہی ہے‘ بینک دولت پاکستان کی جانب سے2025ء تک مہنگائی کی شرح 5 سے7 فیصد کے ہدف تک کم کرنے کیلئے مانیٹری پالیسی کے تسلسل کو ضروری قرار دیا جارہا ہے‘ درپیش صورتحال بلاشبہ تشویشناک اور اصلاح احوال کیلئے موثر حکمت عملی کی متقاضی ہے‘ اس حکمت عملی میں ضروری ہے کہ اکانومی کو قرضوں پر انحصار سے نکالا جائے اس کیلئے ملکی پیداوار میں اضافہ ضروری ہے تاکہ برآمدات کا حجم بڑھایا جائے اس کیلئے پالیسی سازی میں ضروری توانائی بحران پر قابو پانا بھی ہے جب تک انرجی سیکٹر مستحکم نہیں ہوگا پیداواری لاگت کم نہیں ہو پائے گی جبکہ زراعت کا شعبہ آبی ذخائر کی تعمیر کے ساتھ ثمر آور نتائج دے سکتا ہے اس سب کے لئے ناگزیر ہے کہ مرکز اور صوبوں کے ساتھ قومی قیادت سے وسیع مشاورت کا انتظام کیا جائے تاکہ طے پانے والی حکمت عملی حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونے پائے۔