بچے پہلی ترجیح

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز دنیا کو درپیش ہیں‘ جو گلوبل وارمنگ میں کردار سے قطع نظر ہر خطے کو یکساں طور پر متاثر کر رہے ہیں چونکہ انسانی سرگرمیاں دن بدن ماحول کو تبدیل کرتی رہتی ہیں اور ان کے نتیجے میں سیلاب‘ خشک سالی‘ جنگل کی آگ‘ ہیٹ ویو‘ شدید سردی اور زیادہ یا کم بارشیں مستقل ظہور پذیر ہو رہی ہیں جس سے نہ صرف ماحولیاتی نظام بلکہ خوراک‘ صحت اور تعلیم کے شعبے بھی متاثر دکھائی دے رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے مقابلے میں کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں عالمی اضافے نے موسمیاتی واقعات میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے فصلوں کی کم پیداوار‘ پانی اور خوراک کی فراہمی میں خلل پڑا ہے اور اس سے افراط زر کے ساتھ معاشی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ آب و ہوا کے اتار چڑھاؤ نے بہت سے لوگوں کی قسمت بدل دی ہے اور دنیا بھر میں سالانہ پانچ سال سے کم عمر کے سترہ لاکھ بچوں کے لئے ماسمیاتی تبدیلی مہلک ثابت ہو رہی ہے تاہم‘ عالمی تنازعات اور جنگیں صحت‘ غذائی عدم تحفظ اور تعلیم کی صورتحال کو یکساں خراب کر رہی ہیں۔ بچوں کی طرح نوجوانوں کی صحت پر بھی ماحولیاتی عوامل کے طویل مدتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بچے آلودہ ہوا‘ نمی‘ انتہائی درجہ حرارت اور غذائی قلت کا زیادہ شکار ہیں۔ سیو دی چلڈرن کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق بچوں کی بنیادی صحت کی دیکھ بھال‘ خوراک‘ ماحول اور تعلیم کے حقوق اس حد تک متاثر ہوئے ہیں کہ گزشتہ سال دنیا میں آنے والی نئی نسل اپنے آباؤ اجداد کے مقابلے میں اوسطاً دو سے سات گنا زیادہ موسمی خطرات سے لڑتی نظر آئے گی۔ آب و ہوا کی تبدیلی ایک سنگین خطرہ ہے۔ گلوبل کلائمیٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان شدید موسمی حالات اور گلوبل وارمنگ کے حوالے سے دنیا کا پانچواں سب سے خطرناک ملک ہے تاہم‘ آب و ہوا کی تبدیلی (جی ایچ جی اخراج) میں اس کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ جیسے جیسے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے‘ آب و ہوا مزید نقصان دہ ہوتی جا رہی ہے۔ یونیسیف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس (سی سی آر آئی) 2021ء کے مطابق پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی بچے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انتہائی زیادہ خطرے میں ہیں۔ پاکستان میں 2022ء کے سیلاب کے بعد جون 2023ء میں ناقابل برداشت گرمی کی وجہ سے8 لاکھ سے زائد بچے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے۔ یہ چھوٹے بچوں کے لئے تباہ کن ہے کیونکہ وہ گرمی کے بارے میں حساس ہیں اور بالغوں کی طرح اعلیٰ درجہ حرارت کے تغیرات کو تیزی سے ایڈجسٹ نہیں کرسکتے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ بارش کے پیٹرن کو تبدیل کرنے کے ساتھ مون سون کے موسم کو تبدیل کر رہا ہے‘ جس سے زراعت متاثر ہو رہی ہے۔ بارش پر منحصر زراعت جو موسمی حالات پر منحصر ہے‘ پاکستانی آبادی کے تقریبا 60فیصد کی خوراک کی کھپت کو پورا کرتی ہے۔ گنے‘ گندم‘ چاول‘ مکئی اور کپاس جیسی فصلیں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوتی ہیں اور عالمی بینک کی رپورٹ 2021ء میں خبردار کیا گیا ہے کہ آنے والی دہائی میں ان فصلوں کی پیداوار میں مزید کمی آئے گی۔ پاکستان کی تین کروڑ80 لاکھ آبادی پہلے ہی معتدل سے شدید بھوک کا شکار ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد سے زیادہ بچے اب بھی نشوونما سے محروم ہیں جبکہ سندھ میں یہ شرح 66فیصد ہے جس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ شدید موسمی حالات بھی پانی کی قلت اور ملاوٹ کی وجہ سے محفوظ پانی تک رسائی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ پانی زندگی ہے۔ یہ حفظان صحت اور صفائی ستھرائی کو برقرار رکھتے ہوئے متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے 34 کروڑ 70لاکھ بچوں کو کم بارشوں کی وجہ سے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ سیلاب اور موسلا دھار بارش سے پانی کے ذخائر آلودہ ہو جاتے ہیں‘ جو خوراک اور ویکٹر سے پھیلنے والی بیماریوں کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آب و ہوا کے بحران کی وجہ سے متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے پانی اور صفائی ستھرائی ضروری ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات صحت کی سہولیات‘ غذائی عدم تحفظ اور تعلیمی نظاموں کے درمیان دیہی اور شہری معاشروں کی غیر مساوی سماجی و اقتصادی تبدیلی کے طور پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث قدرتی آفات بچوں کے تعلیمی نظام میں خلل ڈالتی ہیں‘ جس سے ان کی نفسیاتی صحت متاثر ہو رہی ہے۔غذائیت‘ صحت‘ پانی‘ صفائی ستھرائی‘ تعلیم اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسے مسلسل خطرات سے دوچار بچوں کے لئے محفوظ ماحول کی فراہمی کے لئے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر تابندہ اشرف شاہد۔ ترجمہ ابوالحسن امام)