امریکی عدالت نے شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر مجوزہ پابندیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر ستمبر میں ٹرائل شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے ضلع کولمبیا کی ٹرائل کورٹ نے 28 مئی کو بتایا کہ ٹک ٹاک پر امریکا میں مجوزہ پابندی کے خلاف ستمبر میں ٹرائل کا آغاز ہوگا۔
امریکی عدالت میں ٹرائل کے آغاز سے قبل ٹک ٹاک اور اس کی مالک کمپنی 20 جون تک قانونی اپیل اور دستاویزات عدالت میں جمع کرائے گی اور اس کے جواب میں امریکی محکمہ انصاف تحریری طور پر اپنے جوابات 26 جولائی تک جمع کرانے کا پابند ہوگا اور دونوں فریقین 15 اگست تک اپنے تحریری دلائل عدالت میں جمع کرائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق تمام فریقین کی جانب سے دلائل جمع ہونے کے بعد ستمبر میں ٹرائل کا آغاز ہوگا اور عدالت مقدمے کی سماعت تیز ترین کرے گی اور ممکنہ طور پر دسمبر تک عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔
خیال رہے کہ امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف امریکا کے ایوان نمائندگان یعنی کانگریس نے 20 اپریل جب کہ سینیٹ نے 24 اپریل کو بل منظور کیا تھا۔
دونوں ایوانوں سے بل کے منظور ہونے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے 25 اپریل کو بل پر دستخط کیے تھے، جس کے بعد وہ قانون بن گیا تھا۔
قانون کے تحت ٹک ٹاک کو آئندہ 9 ماہ یعنی جنوری 2025 تک کسی امریکی شخص یا امریکی کمپنی کو فروخت کیا جانا لازمی ہوگا، دوسری صورت میں اس پر امریکا میں پابندی عائد کردی جائے گی۔
قانون کے تحت امریکی صدر چاہیں تو ٹک ٹاک کو فروخت کرنے کی مدت میں 9 ماہ کے بعد مزید تین ماہ کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
امریکی حکومت کے قانون کے بعد ٹک ٹاک نے گزشتہ ہفتے 7 مئی کو امریکی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
بعد ازاں 14 جولائی کو امریکی ٹک ٹاک صارفین اور کانٹینٹ کریئیٹرز نے بھی پابندی کے خلاف اسی عدالت میں درخواست دائر کی تھی اور اب عدالت میں ستمبر میں ٹرائل شروع ہوگا۔
جوبائیڈن سے قبل گزشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت بھی شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن نے امریکی عدالتوں سے رجوع کیا تھا اور اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرلیا تھا۔