جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کو خلا میں کائنات کے راز جاننے کے لیے بھیجا گیا تھا اور اس کی مدد سے سائنسدانوں نے اب تک کافی کچھ جانا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کی اس ٹیلی اسکوپ نے کائنات کی قدیم ترین اور سب سے دور واقع کہکشاں کو دریافت کیا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق JADES-GS-z14-0 نامی کہکشاں کا قیام بگ بینگ کے 29 کروڑ سال بعد عمل میں آیا تھا۔
کائنات کی ابتدا میں تشکیل پانے والی اس کہکشاں کی چند منفرد خصوصیات بھی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے دریافت کیں۔
یہ کہکشاں بہت بڑی ہے اور 1600 نوری برسوں کے فاصلے تک پھیلی ہوئی ہے جبکہ یہ بہت زیادہ روشن بھی ہے۔
اس کہکشاں سے خارج ہونے والی روشنی کو جیمز ویب کے مڈ انفراریڈ انسٹرومنٹ نے دیکھا تھا جس سے ionized گیس کے اخراج کا عندیہ ملتا ہے۔
سائنسدانوں کے خیال میں یہ گیس ہائیڈروجن اور آکسیجن کا امتزاج ہو سکتی ہے اور یہ دریافت بھی حیران کن ہے، کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ کائنات کی ابتدا میں آکسیجن موجود نہیں تھی۔
اس حوالے سے ہونے والی تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے بتایا کہ تمام تر نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہکشاں دیگر کہکشاؤں جیسی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا امکان ہے کہ مستقبل میں اس ٹیلی اسکوپ کی مدد سے ماہرین ایسی مزید روشن کہکشاؤں کو دریافت کریں جو اس سے بھی زیادہ قدیم ہوں۔
اس سے قبل جیمز ویب اسپیس نے کائنات کا قدیم ترین بلیک ہول بھی دریافت کیا تھا۔
نومبر 2023 میں ناسا کی جانب سے جاری ایک بیان میں اس بلیک ہول کے بارے میں بتایا گیا تھا جو بگ بینگ کے 47 کروڑ سال بعد وجود میں آیا تھا۔
بیان کے مطابق کائنات کی ابتدا میں تشکیل پانے والے بلیک ہول کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا، جس کی عمر 13 ارب 20 کروڑ سال ہو سکتی ہے۔
اس بلیک ہول کو UHZ1 نامی کہکشاں میں دریافت کیا گیا۔
یہ بلیک ہول ہمارے سورج سے 10 سے 100 کروڑ گنا زیادہ بڑا ہو سکتا ہے۔
سائنسدانوں نے کہا کہ یہ کائنات کا سب سے بڑا بلیک ہول تو نہیں مگر ابتدائی عہد میں بننے والے بلیک ہول کا اتنا بڑا حجم غیر معمولی ہے۔